Wednesday 26 October 2011

موجودہ سرمایہ داری نظام کے تضادات

موجودہ سرمایہ داری نظام کے تضادات


انسانی زندگی کی تشکیل تضادات سے مل کر ہوتی ہے-ذرا غور کیجئے کے ایک طرف تو اوسط انسانی عمر میں ١٠ سال کا اضافہ ہو چکا ہے-جبکہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں بھی یہ ٤٨ سے بڑھ کر ٦٣ ہو چکی ہے-اس کا سبب بہت سے عوامل ہیں -سائنس کا زراعت پر اطلاق ہے،صحت کی سہولتوں میں اضافہ ہے،اور شرح اموات میں کمی ہے،یہ محض نصف کہانی ہے -دوسری طرف اس کہانی کا دوسرا رخ بھی موجود ہے-دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لیکر اب تک ١٤٩ جنگیں ہو چکی ہیں-ان جنگوں میں ٢ کروڑ ٣٠ لکھ لوگ مارے گئے ہیں-یہ تقریباًکینڈا کی کل آبادی کے برابر تعداد بنتی ہے-اگر سالانہ اوسط کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ تعداد ١٩ویں صدی میں مارے جانے والے لوگوں سے دو گنا بنتی ہے-اور سات گنا زیادہ ہے ١٨ویں صدی میں سالانہ مارے جانے والے لوگوں سے-اگر ہم اپنے جائزے کو بڑھا ڈالیں اور اس کو ساری انیسویں صدی تک کر لیں تو ہمارا دور اور زمانہ زیادہ خون آشام کہلائے گا-یہ کسی بھی حساب سے پستی بنتی ہے-لکین ان دو پہلوؤں کو دیکھئے تو پتا چلے گا کہ یہ انسانی ترقی کا واصف ہے کہ اس سے زندگی کی تعمیر اور تخریب دونوں پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں-


دنیا میں ڈاکٹرز کی تعداد ١٩٦٠ میں ١٦ لکھ تھی تو وہ ١٩٩٠ میں ٥٧ لکھ ہو گئی -یہ ترقی ہے-دوسری طرف اس کے متضاد ١٩٦٠ میں فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ اسی لخت تھی جو ١٩٩٠ میں دو کروڑ ساٹھ لکھ ہو گئی -یہ پستی کی طرف ایک سفر ہے-اسی عشرے میں فی طالب علم ٤٨٦ ڈالر تعلیم پر خرچ بڑھ کر ١٠٤٨ ڈالر ہوگیا-لکین اس کے متضاد ایک فوجی پر خرچ ١٨١٤٠ ڈالر سے بڑھ کر ٢٦٥٣٦ ڈالر ہوگیا-بی ٹو سٹیلتھ بمبار طیارے کی قیمت ٢ ارب ٣٠ کروڑ ڈالر بنتی ہے-یہ قیمت اس طیارے کے وزن جتنے تین گنا زیادہ سونے کی قیمت کے برابر بنتی ہے-


ہم جہاں بھی دیکھیں گے ہمیں ایسے تضادات نظر آ جائیں گے-آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک امریکہ میں ہفتہ وار فی کس آمدنی میں ١٩٧٣ سے کمی آ رہی ہے-یہ کیسے ہو سکتا ہے؟اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ امریکہ میں بیس امیر ترین آدمیوں اور بیس غریب ترین لوگوں میں جو فرق ہے وہ مصر سے زیادہ ہے-یہ انڈیا ،ارجنٹائن اور انڈو نیشیا سے بھی زیادہ ہے-یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکہ جو کہ سب سے زیادہ صنعتی لہٰذ سے ترقی یافتہ ملک ہے -وہاں بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہو-اور جب کے صحت کے شعبہ میں لوگوں کی تعداد دو گنا ہو چکی ہو-امریکیوں کی اوسط عمر بھی کم ہو رہی ہو،اور ڈاکٹر تک رسائی بھی کم ہو رہی ہو؟یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برطانیہ میں کساد بازاری کے بعد بھی برطانوی سماج پہلے سے زیادہ پیدا وار دے رہا ہو اور وہاں کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لیکر سے نیچے رہ رہی ہو؟


یہ تضادات ہمیں اور زیادہ شدت کے ساتھ نظر آئیں گے اگر ہم اپنی توجہ معشیت سے ہتا کر سیاست کی طرف کر لیں-روس اور مشرقی یورپ میں منڈی کی معشیت کو متعارف کراتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سے توازن اور استحکام آئے گا-لکین اس سے تو اس کے الٹ آدم توازن اور عدم استحکام دیکھنے کو ملا-سرد جنگ کے خاتمہ سے امن اور خوشالی آنے کی نوید سنی گئی تھی -لکین ہم نے دیکھا کہ گلف وار کو چھوڑ کر بھی بھی دنیا نے ٢٩ جنگوں کو ہوتے دیکھا-اور ١٩٩٢ کا سال گزشتہ ١٧ سالوں سے زیادہ خون ریز سال ثابت ہوا-دوسری جنگ عظیم کی ٥٠ ویں سالگرہ پر کی مغربی ملکوں میں فسطائی تنظیمیں اس عروج پر پہنچ گئیں جہاں وہ جنگ سے پہلے تھیں-١٩٩٠ میں جب ترقی یافتہ ملکوں میں محنت کشوں کی تحریکوں کو ماضی کا قصہ قرار دیا جا رہا تھا تو بھی اٹلی ،سپین ،یونان ،کینیڈا اور فرانس میں بڑی بڑی ہڑتالیں دیکھنے کو ملیں-


ان تضادات کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں کو یہ احساس ضرور ہوا کہ ان تضادات سے بھری اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کے لئے کلاسیکل مارکسی سیاسی اور دانشوارانہ روایت کی طرف جانا چاہئے-کیونکہ اسی روایت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام تضادات سے بھرا ہوا نظام ہے-اور اس نظام میں پیدا وار کو ترقی دینے والی قوتیں ایسے ملکیتی رشتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جو ان کو کام کرنے اور آگے ترقی کرنے سے روکتے ہیں-اور یہ کارل مارکس تھا جس نے یہ اصرار کیا تھا کہ جو نظام ایسے تضادات کے ساتھ کام کر رہا ہو اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام ہی ہوا کرتا ہے-اس کا معروف بیان ہمیں بتاتا ہے......


"ترقی کے ایک خاص مرحلے پر سماج کی جو پیدا واری قوتیں ہوتی ہیں وہ پیداوار رشتوں یا سماج کے قانونی اظہار مطلب ملکیتی رشتوں سے تصادم میں آ جاتی ہیں جن کے ساتھ مل کر ابھی تک انھوں نے کام کیا ہوتا ہے "


جب پاپولر تحریکوں کے ہاتھوں مشرقی یورپ اور روس میں ریاستی سرمایہ داری پر کھڑی مشیت کا انہدام ہوا تو کسی نے بھی اس سماجی تبدیلی کا مارکسی بنیادوں پر جائزہ نہ لیا-کسی نے بھی تیسرے عشرے میں داخل ہونے والے سرمایہ داری کی نمو سے پیدا ہونے والے بحران کا اس بنیاد پر جائزہ نہ لیا-نہ ہی کسی نے بین الاقوامی پیدا وار اور نیشن سٹیٹ کے درمیان تباہ کن تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی-اس روایت کے تحت جنوبی افریقہ میں آپرتھائد ریاست کے خاتمے کے باچین سمیت دوسرے ملکوں میں آنے والے بحران کو نہیں دیکھا-ہم نے جو اوپر سرمایہ داری کے تضادات کا جو تجزیہ کیا یہ دراصل اس جدلیاتی طریقہ کار کا ثمر ہے جو کلاسیکل مارکسی روایت سے ہمیں میسر آتا ہے-


سرمایہ داری کے تضادات کا تجزیہ اور اس تجزیہ پر مبنی ایک سائنسی حل ہمیں تبھی میسر آسکتا ہے -جب ہم مادی جدلیاتی طریقہ کار کے تحت ان تضادات کا جائزہ لیں-ورنہ ہم الجھ جائیں گے -اور ہمارا تجزیہ بھی خام ہوگا-


جدلیات کیا ہے ؟


سرمایہ داری سماج کا ابھار ١٦ ویں صدی میں ہوا -اس نظام نے محنت کی تقسیم کی -جس کے نتیجہ میں فرد الگ تھلگ ہو کر اس سماج کی وہ اکائی بن گیا جس پر اس سماج کی تشکیل ہوئی تھی-اجرتی مزدور اپنی قسمت لیبر مارکیٹ میں آزماتے -جہاں وہ بطور فرد کے دوسرے فرد کے مقابلے میں آتے تاکہ وہ اجرت پر ملزم ہو جائیں-یہ اجرتیں دوسری منڈیوں میں خرچ ہوتی-جہاں فرد بطور صارف فرد فروخت کرنے والے سے خریداری کرتے-پھر سرمایہ داری سماج میں خفیہ رائے دہی سیاسی روایت بن گئی-آرٹ جو پہلے چھوٹی سی اقلیت کا اور بعد میں عمومی طور پر مذہبی عبادت کے مشترکہ تجربے کا اظہار بننے کی بجائے فرد کی خواہشات کا اظہار بن گیا -اس کا مطلب فرد کی محبت ،جنسی تشفی ،دولت ،مقام و مرتبہ اور مسرت ہو گیا-مختصر اس کا مطلب فرد کی خواہشات کا پورا کرنے کا آلہ بن گیا-آرٹ کی بھی سی شکلیں پبلک کے تجربہ پر انفرادی تجربہ کو اولیت دینے لگیں-پرنٹنگ نے بائبل کے ذاتی مطالعہ کو فروغ دیا-اور پھر مشترکہ طور پر اس کو پڑھنے کی مذہبی تقریب کی جگہ ناول کو پڑھے جانے کو دے ڈالی-اور تھیٹر بھی اس کی جگہ لینے لگا-ٹی وی نے سینما اور تھیٹر کی جگہ لی -سی ڈی یا ٹیپ نے پبلک پرفارمنس کی جگہ لے لی-اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ آرٹ تک رسائی چاہئے یہ نجی طور پر و یا پبلک طور پر یہ صرف فرد کی طرف سے خریداری کا عمل سر انجام دینے پر ہی ممکن ہو گئی-


یہ جو تجربے کو حصوں میں بانٹنے کا عمل تھا -آج کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے-یہ تقسیم سرمایہ داری نظام کی ابتدائی نمو کے دور میں اس قدر زیادہ نہیں تھی-آج یہ تقسیم بطور سماجی اور نظریاتی حقیقت کے بہت زیادہ نمایاں ہو چکی ہے-اسکول ہوں یا یونیورسٹیاں سب آج بھی آرٹس،سائنسز کے الگ الگ پڑھائے جانے پر اصرار کرتی ہیں-ان کا اصرار ہے کہ لسانیات ،تاریخ ،انجینئرنگ اور سماجیات ،شاعری اور کامرس ایک دوسرے سے الگ اور آپس میں کوئی تعلق رکھنے والے علوم نہیں ہیں-


اخبارات میں بےروزگاری اور خود کشی کی شرحوں کو الگ الگ خبر بنا کر پیش تو کر دیا جاتا ہے-لکین ان کے باہمی تعلق پر بات نہیں ہوتی-غربت کی شرح آپ کو صفحۂ نمبر چار پر اور جرائم کی شرح چھے نمبر پر رپورٹ ہوتی ہوتی ہے،آرٹ پر تنقید لٹریری سپلیمینٹ میں نظر آتی ہے-پینٹنگ کی فروخت بزنس صفحۂ پر-اور سٹوڈیو کا ادغام فنانشل خبروں میں نظر آئے گی-


زیادہ تجرید سے کام لیں تو ہم اس قسم کی دنیا کی تفہیم پر مبنی نظریات پر بہت سی سائنسی اپروچ کے نام پر تجربات،منتقی اثباتییت یا فارمل لاجک کے نام سے ملتی ہیں-اس قسم کی فکر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کسی بھی صورت حال کا جب ہم پہلی دفعہ مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ جیسے ظاہر ہوتی ہے -ویسے ہی اس کو قبول کر لیا جائے-اور تقسیم شدہ حالت میں جن میں ہم ان حقائق کو دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں ناگزیر اور نہ تبدیل ہونے والی خصوصیات پر مبنی لگتے ہیں-اور اس میں غیر متغیر یوسف کی حامل چیزیں لگتی ہیں-اور یہ حقایق ہمیں کسی تاریخی ارتقا کا نتیجہ نہیں لگتے-ان حقایق کے درمیان کسی تعلق کو اہم خیال نہیں کیا جاتا -اور ان کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے-اور ان حقائق کی ترکیب کو کم یا زیادہ مستحکم خیال کیا جاتا ہے-اور اگر یہ کسی ترقی کے عمل میں داخل بھی خیال کر لئے جائیں تو ان کو سادہ طور پر علت اور معلول کی اصطلاح میں بیان کر دیا جاتا ہے-ماہرین حیاتیات رچرڈ لیونس اور رچرڈ لیونٹن نے اس طریقہ کار کو کارتیسی تخففیت کا نام دیا تھا-اور انھوں نے کہا تھا کہ یہ طرز فکر چار اوصاف رکھتی ہے-


١-کوئی بھی کلی نظام فطری اکائیوں یا یونٹس پر مبنی نظام ہوتا ہے-


٢-یہ اکائیاں الگ تھلگ ہوتی ہیں جن کا مجموعہ مل کر نظام بناتا ہے-یہ اجزاء اپنی خصوصیات رکھتے ہیں-اور یہ ان کو انفرادیت کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے کلی نظام کو دیتے ہیں-


٣-یہ اکائیاں اپنے آپ میں یکجنسی ہوتے ہیں-


٤-سبب اپنے مسبب سے الگ ہوتے ہیں-سبب موضوع کے خواص ہوتے ہیں جبکہ مسبب معروض کا-جبکہ سبب مسبب سے آنے والی معلومات پر رد عمل دے سکتے ہیں-اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون علت والا موضوع ہے اور کون معلول معروض -


جب اس کسم کی فکر کسی متضاد حقیقت کو تسلی بخش طریقہ سے بیان کرنے سے قاصر رہتی ہے تو سرمایہ داری کے حامی دو طرح کی حکمت عملی اپناتے ہیں-ایک طریقہ تو عقلیت پسندی کے ساتھ اس حقیقت کے ایسے پہلوں پر زور دینے کا ہوتا ہے جس سے اپنی فکر کو ٹھیک ثابت کیا جا سکے-یا پھر مافوق فطرت قیاس کا سہارا لیتے ہوئے اسرار پسندی کو اپنا لیا جاتا ہے-


اس قسم کی فکر کیونکہ دنیا کو کسی ایک پہلو سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ اکثر ایک دوسرے کی حریف بن کر سامنے آتی ہیں-جارج لوکاش اس کو اینٹی نامنیز وف بورزوا تھاٹ کہتا ہے-اور اس کو طبقہ اور شعور میب تفصیل سے بیان کیا ہے-


جدید جدلیات انہی تضادات اور جس سماج سے یہ تضادات جنم لیتے ہیں سے ابھرتی ہے-جدید جدلیات اس قسم کے طرز فکر کو رد کرنے کے لئے تین اصولوں پی انحصار کرتی ہے-یہ تین اصول "کلیت،تغیر ،اور تضاد ہیں-اگر ان اصولوں کو الگ الگ لیا جائے تو جدلیاتی فکر کی تعمیر نہیں ہو سکتی-ان کو ساتھ لیکر اور اکھٹے لے کر چلنے سے جدلیاتی فکر کی تعمیر ہوتی ہے-اب ہم ان کو باری باری دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں-


کلیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا جن عناصر سے مل کر بنی ہے -وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں-اور مل کر ایک کل کی تشکیل کرتے ہیں-پیداوار ایک کلی عمل ہے نہ کہ یہ محض انفرادی جدوجہد کا نتیجہ ہے-منڈی ایک سماجی ادارہ ہے-نہ کہ یہ انسانی رویے کا فطری نتیجہ-غربت،جرائم.بے روزگاری،اور خود کشی ،آرٹ اور بزنس،زبان اور تاریخ،انجینئرنگ کو الگ الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ہے-بلکہ ان کو ایک کلیت کے اندر رکھ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے-


پھر جب ہم ان اصطلاحوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو ان کے مطلب بھی بدل جاتے ہیں-جب ایک دفعہ ہم غربت اور جریم میں باہمی رشتہ دریافت کر لیتے ہیں-تو ہم اس کو کرمنل جسٹس سسٹم سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے جب کے ان کو الگ الگ میدان سمجھنے کی روش موجود ہے-جدلیاتی طرز فکر میں کسی بھی جز کو اس کی کلیت کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے-اور اس کا باقی اجزاء سے بھی تعلق دیکھا جاتا ہے-دوسرے لفظوں میں جز کل بناتے ہیں اور کل جز بناتا ہے-


جدلیاتی تجزیہ میں کل ہی اپنے اجزاء سے کچھ زیادہ قسم کی چیز نہیں بنتا بلکہ یہ اجزاء بھی اس کل میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اپنی انفرادی حالت سے کچھ زیادہ ہی ہوجاتے ہیں-


حقیقت یہ ہے کہ ان اجزاء کی خصوصیات جو ہوتی ہیں وہ ان کے ایک کل میں جڑے ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں-یہ خواص کل میں جڑنے کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کم کے دوران میں وجود میں آتے ہیں-ایک شخص کتنا ہی اپنے بازوؤں کے ساتھ اڑنے کی کوشش کرے نہیں اڑ سکتا-نہ ہی کوئی گروہ مل کر ایسا کر سکتا ہے-لکین لوگ اڑتے ہیں-مگر ایک ایسی سمجی تنظیم کے نتیجے میں جو کہ ہوائی جہاز ،پائلٹس اور فیول کو پیدا کرتی ہے-تو سماج پرواز نہیں کرتا مگر سماج کے رہنے والے لوگ اڑان بھرتے ہیں-جو ایسی خاصیت حاصل کرتے ہیں ج ان کو سماج سے باہر حاصل نہیں ہو سکتی تھی-تو افراد کی جو جسمانی حدود ہوتی ہیں سماجی عمل سے ان کی نفی ہو سکتی ہے-تو اس طرح سے کل صرف اس کے اجزاء کا باہمی عمل کا نام نہ ہے بلکہ کل کے بھی ان اجزاء پر کام کرنے کا نام ہے-


اس اپروچ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی بھی لحاظ سے تخفیفی رویہ نہیں رکھتی-یہ فرد کے کردار کو کل کے حق میں ختم نہیں کرتی -نہ ہی یہ سماج کے کردار کو محض اس کے اجزاء کے کردار تک محدود کرتی ہے-جدلیاتی مادیت کل اور اس کے اجزاء کے باہمی عمل کے نتیجہ میں کیفیتی صورت حال کو دکھلاتی ہے-


کلیت تنہا جدلیات کی تعریف متعین نہیں کر سکتی-کیونکہ بہت سے غیر جدلیاتی نظریات بھی کلیت کا نظریہ رکھتے ہیں-جیسے مذہبی فکر بھی اےکقسم کی کلیت کی قائل ہوتی ہیں-لکین اس قسم کی کلیت کے نظریات میں یہ چیز مشترکہ ہے کہ یہ کلیت کو ایک بے حرکت ساکت اور جامد شے خیال کرتی ہیں-ان کے خیال میں اوپری سطح پر ساری اتھل پتھل کے باوجود ان کے نیچے ایک ناقابل تغیر اور ابدی سچ پایا جاتا ہے-اور یہ سچ ناقابل تغیر خدا کی ذات بھی ہو سکتی ہے،ین اور یانگ کے درمیان نہ ختم ہونے والی توازن کی تلاش بی،یا وقت سے ماوراء انسانی اقدار اچھی اور بری -اس قسم کے خیالات میں جس قسم کی کمی ہوتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ کلیت کو تبدیلی کا ایک عمل خیال نہیں کرتیں-اور اگر یہ تبدیلی کو کلیت کا حصہ ماں بھی لیں تو اس کو یہ توازن حاصل کرنے کا ابتدائیہ خیال کرتی ہیں اور کچھ نہیں-فری مارکیٹ کی معشیت انہی اصولوں پر کام کرتی ہے-اس کا کہنا ہے کہ رسد اور طلب خود بخود آپس میں ہم آہنگ ہو جائیں گی اگر ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے-حکومتیں اور ٹریڈ یونین ان میں مداخلت نہ کریں-عدم توازن توازن سے ،بحران استحکام سے بدل جائے گا اگر یہ روکاوٹیں دور کر ڈی جائیں -


تبدیلی،ترقی ،عدم توازن اس حقیقت کا حصہ ہوتی ہیں جس کو بیان کرنے کے لئے جدلیاتی فکر کی تشکیل ہوتی ہے-ہیگل کے نظام فکر کی برتری کا جو سب سے زیادہ اہم سبب تھا وہ اینگلس کے نزدیک یہ تھا کہ"


"پہلی مرتبہ دنیا کی فطری ،تاریخی اور دانشوارانہ رونمائی ایک ایسے پروسس کے طور پر ہوئی جو مسلسل حرکت میں ہے،تبدیل کی زد میں ہے،انقلابی عمل سے گزر رہا ہے،ترقی پذیر ہے-پہلی دفعہ اس اندرونی اور داخلی تعلق کو بیان کرنے کی کوشش ہوئی جو اس حرکت کو مستقل کل میں تشکیل دیتا ہے-ورس کو ترقی پذیر دکھاتا ہے-اس قسم کی فکے کی رو سے انسان کی تاریخ محض بے کی مقصد کے بغیر ہونے والے تشدد کی کہانی نہیں رہتی -جس کی بالغ فلسفیانہ عقل تردید کرتی ہو -اور اس کو جل از جلد بھلانے پر زور دیتی ہو-بلکہ انسانی تاریخ انسان کے ارتقا اور ترقی کے ایک پروسس کے طور پر سامنے آئی"

لکین کلیت اور تبدیلی کو اگر اکٹھا بھی لے لیا جائے تو یہ مکمل طور پر جدلیاتی نظام کو بیان نہیں کرتیں-ان دو کے ساتھ ہمیں کچھ عمومی اشارے بھی کرنے پڑتے ہیں-اس شے کے بارے میں کہ یہ تبدیلی کہاں سے آتی ہے-اکثر نظریات تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے سادہ طور پر سبب اور مسبب کا بیان کرتے ہیں-جیسے کہا جاتا ہے کہ مغلوں کو نادر شاہ نے شکست دی اور اس کے بعد انگریزوں نے ١٨٥٧ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اپنی حکومت قائم کرلی اور پھر وہ تحریک آزادی کے نتیجہ میں تقسیم کر کے چلے گئے-یہ جو واقعات کا اس طرح سادگی سے بیان ہوتا ہے یہ تبدیلی کو بیان تو کرتا ہے -لکین اس کی تشریح نہیں کرتا-

ہیگل اس قسم کے بیانیہ کو "بری لا محدودیت "قرار دیتا ہے-کیوں کہ یہ نہ ختم ہونے والے سبب ،مسبب کے سلسلے کو جنم دیتا ہے-اس ترہ کے طرز فکر میں خامی یہ ہوتی ہے کہ یہ سبب اور مسبب کے بیان میں جو اصل سبب ہوتا ہے اس کو ان سبب اور مسبب کے دائرہ سے باہر کسی اور شے کو قرار دیتے ہیں-مطلب یہ ہوتا ہے کہ وجہ اور سبب سسٹم سے باہر ہے-جب کہ جدلیاتی فکر تبدیلی کا سبب نظام کے اندر ہی تلاش کرتا ہے-اور اگر تبدیلی نظام کے اندر ہی اپنی وضاحت رکھتی ہے تو پھر سبب اور مسبب کا یک خطی ماڈل یہ نہیں اپنا سکتا-کیوں کہ اس سے ہم جس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں -وہ حل تو نہیں ہوگا -بلکہ ہم وہیں آجائیں گے جہاں سے ہم چلے تھے-اگر تبدیلی کسی نظام کا داخلی نتیجہ ہے تو پھر یہ اس نظام کی اندرونی صفات کے تضادات ،عدم استحکام اور ارتقا کا نتیجہ ہونا چاہئے -

تو کلیت اور تبدیلی کے ساتھ ساتھ تضاد وہ چیز ہے جس کے بغیر جدلیاتی اپروچ کو بیان نہیں کیا جا سکتا-اور تضاد وہ چیز ہے جس سے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ایک سماجی طبقے کی جگہ دوسرا سماجی طبقہ کیسے لے لیتا ہے-اور کیسے طبقات کے درمیان تصادم ہوتا ہے جو اس نظام کی تشکیل کرتے ہیں اور یہ تصادم اس نظام کی نفی تک لیجا کر نئے سماج کی تشکیل کا سبب بن جاتا ہے-یہ تشریح کی ایک شکل ہے-کیونکہ تشریح خود بھی ان تجرباتی حالت پر انحصار کرتی ہے جو کہ کسی سماج میں ہوتے ہیں-ٹھیک ٹھیک تضادات اور ان کا نتیجہ اسی کے مطابق تبدیل ہوتا ہے-

ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ جدلیات کی ایک عمومی شکل ہے-یہ ایک داخلی متضاد کلیت ہے جو مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے-یہ تبدیلی کا مکمل ایک پروسس ہے-تضاد کا جو اصول ہے یہی تخفیفیت کی راہ میں روکاوٹ ہے-کیونکہ دو متضاد عناصر ایک دوسرے میں تحلیل نہیں ہوسکتے بلکہ وہ ایک دوسرے سے متصادم ہو کر ایک تالیفی عمل سے گزرتے ہیں اور نئی شے بناتے ہیں-جو کہ ان میں سے کسی ایک کے برابر نہیں ہوتی-

جدلیاتی طرز فکر کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس کے نزدیک اجزاء اور ان کا کل ایک دوسرے کے مماثل نہیں ہوتے-اجزاء اور کل کہیں بھی ایک دوسرے میں گم نہیں ہوتے-اجزاء اور کل ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل عمل پذیر رہتے ہیں-تالیفی عمل سے بننے والا کل کبھی بھی تخفیفی نہیں ہوا کرتا-تو اس ترہ سے تالیف بھی جدلیاتی اپروچ کو بیان کرنے والی اہم اصطلاح ہے-تو ہم کہ سکتے ہیں کہ کلیت،تبدیلی ،تضاد اور ان سے جنم لینے والی تالیف جدلیات کی اہم اصطلاح ہیں-مارکسی روایت میں یہ دانشوارانہ اوزار نہیں بلکہ حقیقی مادی پروسس ہیں-تو یہ مادی جدلیات ہے-

مارکس اور اینگلس نے جب اس کی جڑیں فطرت اور سماج میں ہونے والے ارتقاء میں تلاش کیں تو یہ انقلابی اپروچ میں ڈھل گئی-ہیگل کی فکر کے دایاں اور بیان رجحانات کے حامل لوگوں نے غلطی یہ کی تھی کہ وہ اپنے کام میں جدلیات بارے سوچتے ہوئے محنت کش طبقے کی خود اپنی سرگرمی کو بھول گئے تھے-اور اس سرگرمی کی ٹھیک ٹھیک سمجھ ہی جدلیات کے مادی اطلاق کو ممکن بناتی ہے-

یہاں پر جدلیات کے نام نہاد تین قوانین کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے-یہ تین قوانین یہ ہیں

١-تضاد کا قانون ٢-مقدار کے کیفیت میں بدلنے کا قانون ٣-نفی کی نفی کا قانون

یہ تین اشکال وہ ہیں جن میں جدلیات بعض اوقات خود کو ظاہر کرتی ہے-لکین یہ قوانین ایسے نہیں ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ جدلیاتی تبدیلی صرف اسی راستے سے آتی ہے-

ان کو ہم اوپر جدلیات کی کی گئی وضاحت کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں-مارکس اور اینگلس نے بھی اس پر زور دیا تھا کہ ان تین کو حقیقی تضادات کے ارتقاء کی تلاش کے مشکل تجرباتی ٹاسک کا مترادف خیال نہیں کرنا چاہئے-اور نہ ہی یہ کوئی ماوراء تاریخ کوئی کنجی ہے جس کو اس وقت استعمال کر لیا جائے -جب کسی بھی قسم کا تاریخی علم موجود نہ ہو-لکین اگر ان کو احتیاط کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ جدلیاتی تفہیم میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں-

تضاد کا قانون سادہ طور پر تضاد کو بیان کرنے کا طریقہ ہے-جیسے فرد اور سماج جز اور کل ہیں-اور یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں-ایک مثال سرمایہ داروں اور مزدوروں کی ہے-یہ سرمایہ داری نظام میں ایک دوسرے کے متضاد پول ہیں-ایک پیدا وار کے سرچسمے پر قابض ہیں -جب کہ دوسرے خالی ہاتھ تو وہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں-ان میں کوئی ایک دوسرے کے بنا رہ نہیں سکتا -دونوں کے درمیان تصادم ان کا داخلی تضاد ہے -جس پر سرمایہ داری نظام حرکت میں آتا ہے-

مداری تبدیلی کے کیفیتی تبدیلی میں بدل جانے کا قانون بتاتا ہے کہ کیسے مزدور پہلے کام کے اوقات میں کمی اور اجرتوں میں اضافہ کے لئے کسی ایک فیکٹری میں ہرتال کرتے ہیں -یہ مقداری تبدیلی اس وقت کیفیتی تبدیلی بن جاتی ہے جب خاص ہڑتالیں عام ہرتال میں بدل جاتی ہے-اور پھر یہ ایک سیاسی تحریک بن جاتی ہے-

نفی کی نفی کا قانون ہماری توجہ اس رستے کی طرف دلاتا ہے -جس میں نئی اور ممتاز صورت حال ان تضاد بھرے حالت سے جنم لیتی ہے -جس میں پرانے حالت ایک دم تبدیل ہو کر نئی حالت میں سامنے آ جاتے ہیں-اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مستقبل ماضی کے عناصر رکھتا ہے-لکین یہ مستقبل ماضی سے بہت مختلف ہوتا ہے-مارکس کہتا ہے کہ مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہم تصادم سے یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے سماج واپس ما قبل سرمایہ داری والی حالت میں چلا جائے گا-بلکہ ہم نئی قسم کے سماج کی توقع کرتے ہیں-

آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ جدلیات اس وقت تک انسانوں کے شعور اور کنٹرول سے باہر اندھی قوت کی طرح کام کرتی رہتی ہے جب تک کوئی طبقہ سماج کی فطرت سمجھنے کے قابل نہ ہو جائے-اور وہ سرمایہ داری سماج میں میں موجود تضادات پر قابو پانے کے قابل نہ ہو-مارکس اور اینگلس بھی ہیگل کی جدلیات کو اس وقت بدلنے کے قابل ہوئے تھے جب انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ محنت کش وہ طبقہ ہے جو اپنی نجات بھی کر سکتا ہے اور باقی سماج کی بھی-کیونکہ اس کو یہ مقام مل چکا ہے-اور مادی جدلیات ہی مارکس کا مزدور انقلاب کا نظریہ ہے-

No comments:

Post a Comment