Sunday 4 December 2011

امام علی اور ان کا نظریہ توحید

امام علی اور ان کا نظریہ توحید
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود اور نظریہ توحید پر ایک تھیسس لکھنا تھا-اور اس تھیسس کے لئے مجھے مسلم فلسفہ میں توحید کی حوالے سے اول سے لیکر آخر تک توحید کے حوالے سے مسلم فکر کے ارتقاء کی تاریخ کو دیکھنا پڑا-یہ بہت دلچسپ کہانی بنتی ہے-میں نے انہی دنوں نہ صرف شیعہ اور بریلوی مولوی حضرت سے رابطے کئے-بلکہ دیوبندی اور وہابی حضرات سے بھی رابطے ہوئے-اور ان روابط کے دوران جہاں مسلم تاریخ کے اولین ماخذ کے بارے میں بہت ساری آگاہی ملی -وہیں پر مجھے عقیدہ توحید کے حوالے سے ہونے والے معرکوں کے بارے میں بھی پتہ چلا-
مسلم تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بنتا ہے کہ یہاں جو توحید کے حوالے سے بحث شروع ہوئی -اس کا پس منظر سیاسی تھا-اور یہ سیاسی جدوجہد تھی جس کے دوران عقیدہ توحید میں بھی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی رہیں-خلافت اور اس کے پہلو سے نکلنے والی ملوکیت نے توحید کو جس طرح سے شکل دینے کی کوشش کی -اس کو اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرکاری اور درباری مولویوں اور مفتیوں کو کیوں یہ ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ توحید میں اس کی ذات کو اس کی صفات سے الگ کر کے ایک دوئی کی کیفیت پیدا کر دیں-یہ جو ذات الہی کی تقسیم کی کوشش تھی -اسی کی وجہ سے بنوامیہ اور بنو عباس اپنے پنی ملوکیت کو قائم اور دائم رکھ سکتے تھے-اور اسی کے بل بوتے پر وہ یہ کہ سکتے تھے کہ توحید اور عدل کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں بنتا ہے-جب آپ ذات اور صفات دونوں کو قدیم ماں لیتے ہیں تو ایک طرف تو فکری طور پر ایسی پیچدگی کا آغاز ہوتا ہے کہ آپ اس سے نکلنا بھی چاہئیں تو نہیں نکل سکتے -کی وجود ایکٹو واجب الوجود ثابت ہوتے ہیں-واجب الوجود کا مطلوب یہ کہ ایسا وجود جو اپنے ہونےمیں کسی اور کا محتاج نہ ہو-پھر یہ کثیر وجود کئی ازلی اور قدیمی وجودوں کو ماننے پر آکر رکتے ہیں-اور پھر یہ سلسہ چلتے چلتے واجب الوجود ذات کو حادث ،ممکن وجود میں لے آتا ہے-یہ وہ مشکلات ہیں جن سے سرکاری اور درباری مولویوں اور مفتیوں سے نظریہ توحید کو اخذ کرنے والے ہمیشہ دوچار رہے-اور یہ نظریہ توحید ظالموں اور قبضہ گیروں کو جواز حکمرانی بھی فراہم کرتا رہا ہے-
میں یہ ساری تفصیلات جان کر حیرانی کے سمندر میں غرق رہا-مابعد الطبیعات سے مجھے اس قدر کبھی لگاؤ نہیں رہا تھا-اور میں جو جدلیاتی مادیت کا سچا پیرو کار ہوں -کبھی مذہبی موشگافیوں میں مبتلا بھی نہیں رہا-لکین ایک علمی تحقیق کے دوران جب اس معاملے کو دیکھنا پڑا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا تاریخی مادیتی شعور میرے کتنے کام آیا -کہ میں ان نظریات کے جدال کے پیچھے کارفرما ٹھوس مادی حالت کا بھی ادرک کرنے کے قابل ہوگیا-اگر کبھی موقعہ ملا تو توحیدی نظریات کے پیچھے کارفرما تاریخی مادی حالات بارے بھی تفصیل سے لکھوں گا-سردست میرا مقصد امام علی کے نظریہ توحید کے بارے میں بات کرنا ہے-اور یہ میں اس لیکرنے جا رہا ہوں کہ کل رات امام بارگاہ میں مجلس پڑھتے ہوئے ایک عالم نے ذات خداوندی پر بات کرتے ہوئے خدا کی ذات کے مظہر ہونے کی ایک دلیل پر گفتگو کی تو مجھے وہ عالم امام علی کے نظریہ توحید سے کون دور نظر آئے-اور اسی غلطی کے مرتکب ہوئے جس سے بچانے کے لئے امام علی نے بہت مرتبہ توحید پر کلام کیا-یہ کلام بہت اہمیت کا حامل ہے-اور اس کلام کے مواد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ آتا ہے کہ امام کس قدر اس بات سے آگاہ تھے کہ تشبیہ اور مثل دو ایسی بیماریاں ہیں جو اگر توحید میں داخل ہوجائیں تو پھر توحید توحید نہیں رہتی بلکہ دوئی میں بدل جاتی ہے-مجھے امام علی کے کلام میں یہ پہلو اس وقت نظر آیا جب میں نہج البلاغہ میں امام کے اقوال توحید پر تلاش کر رہا تھا-اب یہ عجیب اتفاق تھا کہ امام علی کا پہلا خطبہ جو آفرینش کے بارے میں ہے -اس کا آغاز ہی اسی نظریہ توحید کے بیان سے ہوتا تھا-اور شائد یہ امام علی کا پوری نہج البلاغہ میں سب سے زیادہ تفصیلی خطبہ ہے-عقیدہ توحید پر-اور یہ وہ خطبہ ہے جس کو پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ کیوں ابن عربی جیسا عالم صفات کے عین ذات ہونے پر اصرار کرتا تھا-اور معتزلہ کیوں توحید میں تنزیہ کو ضروری قرار دیتے تھے-اور تشبیہ کی مخالفت میں کمر بستہ تھے-اور کیوں فخر الدین رازی پر سوال نقد اور جواب ادھار دینے کا الزام لگا تھا-اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں بنو امیہ اور بنو عباس کے بادشاہوں کے درباری مولوی آخر میں عقل ،استدلال ،منطق،فلسفہ ہی کے دشمن ہو گئے تھے-اور پھر بغداد اور غرناطہ میں کتب ہائے علمی کو جلایا کیوں جانے لگا تھا-اگر ہم مسلم دنیا میں زوال علمی اور فلسفیانہ علوم اور سماجی علوم سے نفرت اور حقارت والے رویہ کے پھلنے اور پھولنے کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کی وجہ بھی یہی سرکاری نظریہ توحید نظرآئے گا-
تو امام علی کا یہ اول خطبہ بہت اہم ہے-میں مجلس سن کر گھر آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ میں نے اپنے نوٹس والی پرانی کاپی نکالی اور بیروت سے چھپی نہج البلاغہ سامنے رکھی -جس پر ایک عربی اور ایک فارسی تشریح کے حاشیہ موجود ہیں-تو مجھے احساس ہوا کہ میرا خیال ٹھیک تھا-میرے نوٹس میں عنوان لکھا ہوا ہے "حضرت علی کرم الله وجہہ کا نظریہ توحید "
یہاں میں نوٹس کو جوں کا توندرج کر رہا ہوں-
نہج البلاغہ کا خطبہ اول میں ایک جگہ لکھا ہے
وہ ذات جس کا ادرک بلند ہمت والے بھی نہیں
کر سکتے-
پھر اسی خطبہ میں مولا کا یہ فرمان درج ہے
دین کی اول (بنیاد)اس کی (ذات خدا )کی معرفت ہے
اور اس کی معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے
اس کی تصدیق کا کمال اس کی توحید ہے
اور کمال توحید اس کے لئے اخلاص ہے
اور کمال اخلاص اس کی ذات سے صفات کی نفی ہے
اور یہ گواہی دینا ہے کہ ہر صفت اپنے موصوف کی غیر
ہوتی ہے-
یہ بھی گواہی دینا ہے کہ موصوف بھی اپنی صفت کا غیر ہوتا ہے
تو جو بھی صفت کو موصوف سے ملاتا ہے -وہ دوئی کا مرتکب
ہوتا ہے-
اور جو دوئی کا مرتکب ہوتا ہے -وہ ذات کی تقسیم کا مرتکب ہوتا ہے
اور جو ذات کو تقسیم کرے -ووھیس ذات سے بےخبر ہوتا ہے
اور یہ ذات سے بے خبری ہے کہ اس کی سمت اشارہ ہوتا ہے
نوٹ :امام علی نے یہاں بتایا ہے کہ صفات کو اگر تسلیم کر لیا تویہ ذات خدا کو تقسیم کرنے کا عمل ہوگا-اور اسی کے نتجہ میں خدا کے لئے کسی مکان اور جہت کا ماننا لازم آئے گا-اور پھر خدا اور بندے میں کوئی فرق نہیں رہے گا-
جو اس کی طرف اشارہ کرے -وہ اس کی حد مقرر کرے
جو حد مقرر کرے تو گویا اس کو قابل شمار خیال کرے
اور جس نے خدا کے مکان بارے سوال کیا
اس نے اسے مکان کے ساتھ ملا دیا
جس نے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ کس چیز پر ہے
اس نے دوسرے مقام کو اس سے خالی خیال کر لیا-
نوٹ :امام علی کا یہ بیان اس کی ذات کے مطلق واحد ہونیور اس کی ذات کے مجرد واحد ہونیکے بارے میں ہے-اور جب کوئی مطلق ومجرد واحد ہو تو پھر اس کی تقسیم کا کوئی شبہ نہیرھتا-امام علی کا کہنا یہ ہے کہ خدا کی زاٹکی وحدت تجرید اور مطلق وحدت پر ہے-اسی وجہ سووہ صفت کو اس کی ذات سے الگ یا اس کی ذات پر زائد ہونے سے انکار کو کمال توحید قرار دیتے ہیں-اور ان کے نزدیک تبھی تو ذات کی وحدت برقرار رہتی ہے-اسی لئے وہ مرکب وحدت کا انکار کرتے ہیں-کیونکہ جو مرکب ہو -وہ ترکیب میں آتا ہی اجزاء سے ہے اور جو اجزاء سے مرکب ہواہو وہ تقسیم و تحلیل بھی ہو سکتا ہے-اور جو تحلیل و تقسیم ہو جائے یاس کا امکان پیدا ہو جائے وہ ذات پھر خدا کی ذات تو تو نہیں رہ پاتی-مولا علی کی یہ توجیح مجھے سورہ اخلاص سے اخذ کی ہوئی لگتی ہے-کیونکہ سورہ اخلاص ووہسورۂ ہے جو مکمل تجرید اور تنزیہ کی کامل و اکمل مثال ہے-جس میں احد،صمد اور پھر اس کے احد ہونے اور اس کی احدیت میں کسی کے شریک نہ ہونے کا بھی ذکر موجود ہے-اور قران ہی میں ایک جگہ یہ موجود ہے کہ
کوئی شے بھی اس کے مثل نہیں ہے-
اور ایک جگہ یوں ہے
آنکھیں اس کا ادرک نہیں کرتیں -مگر وہ تمام کی بصریتوں
کا ادرک کرتا ہے-
کیونکہ ادرک کو جتنا چاہئیں پھیلائے -اس کی ذات کا احاطہ ممکن نہیں ہے-کیونکہ کے ممکن کا ادرک بھی ممکن اور اس کی کوئی ابتدا ،درمیان اور آخر ہوا کرتا ہے-اور یہ ابتدا،درمیان اور آخر تو احدیت کے منافی ہیں-جو وجود ممکن ہے -وہ حادث بھی ہے-اور اپنے ہونے کے لیےکسی کا محتاج بھی-اور جو جوہر ہے وہ بھی چار جہتوں اور وقت کے ساتھ بندھے ہونے کی وجہ سے ممکن ہی ہوتا ہے-اور جو عرض ہو وہ بھمختالیف کیفیتوں کی وجہ سے ممکن اور بقا سے خالی ہوتا ہے-تو خدا عاملی کہاں اپنی ذات کے اعتبار سے واحد بھی ہے-اور اپنے وجود کے اعتبار سے بھی وہ واحد ہے-اور اسی لئے واجب الوجود ہے-مطلب وہ اپنے ہونے کے لئے کسی اور چیز کا محتاج نہیں ہے-اور اسی وجہ سے اس کی صفات کو اس کی ذات کا عین کہا گیا ہے-یہ اس کی ذات پرکسی قسم کا اضافہ نہیں ہیں-نہ ہی اس پر کوئی زائدہ قسم کی چیز ہیں-
یہ ہیں وہ نوٹس جو میں نے پہلے خطبہ کے بارے میں لئے تھے-میں نے عربی اور فارسی عبارت کو حذف کر دیا -کیونکہ مطلب اور ثقیل ہوجاتا-تجرید اور اخلاص کا توحید میں جو پیمانہ امام علی نے اپنے خطبہ میں بیان کیا -وہ مجھے کل رات نظر نہیں آیا-بلکہ تشبیہ اور ذات کی تقسیم کی طرف مائل عالم کا خطاب بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا-ایک اچھی بات یہ عالم اپنے سننے والوں سے کہ رہے تھے کہ انہیں اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے-کتب کو پڑھنا چاہئے-تاکہ کل کو وہ مجھے کہ سکیں صاحب آپ یہاں غلطی پر ہو-میرا دل چاہا تھا کہ میں اٹھ کےرسول کر دلوں -لکین میں نے ان کی کہی بات کو عقیدت سے سنا اور قبول کر لیا-اس کا تجربہ کرنے کی کوشش نہیں کی-ورنہ نتیجہ بہت برا نکلنا تھا-میں شائد اس وقتبیٹھا یہ نوٹ نہ لکھ رہاہوتا-
ہاں ایک اور بات یاد آئی -رات یہ عالم اپنے علم کو گلوبلائز کرنے کا کہ رہے تھے-اور اس کے لئے انٹرنیشنل مارکیٹ سے جڑنے کا کہ رہے تھے-منڈی اور وہ بھی بین الاقوامی .........تو مجھے بے اختیار خیال آیا کہ منڈی کی معشیت کا تو اصول رسد اورسپلائی پر ہے-اور توحید کو اگر پروڈکٹ کے طور پر دیکھاگیا تو اس کے ساتھ منافع کو بھی جوڑنا پڑے گا-علی کی جو توحید ہے-وہ تو امراء،دولت مندوں ،طاقت وروں کے مقابلے میں کمزروں کی ہمنوا ہے-منڈی کی معشیت میں تو یہ ویسے ہی ناکام ہو جائے گی-یا پھر اس کا کردار تبدیل کرنا پڑے گا-جیسے صفوی بادشاہوں نے کیا تھا-اور علی شریتی کو کہنا پڑا تھا کہ صفوی شیعت کا سرخ شیعت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا-اور یہ علی کی شیعت نہیں ہے-ہمارے ذاکروں اور مولویوں نے تو برصغیر میں اس کا کردار عرصۂ دراز سے بدل رکھا ہے-یہ فیوڈلز ،سرمایہ داروں ،نوابوں اور افسر شاہی کی خدمت کرنے والے نظریہ کا روپ دھار چکی ہے-اور دیہی غریب تو اس اشراف پنے کے ہاتھوں صدیوں سے استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں-

Saturday 12 November 2011

حسن ناصر شہید ........انقلابی سیاست کا چمکتا ستارہ



حسن ناصر شہید ........انقلابی سیاست کا چمکتا ستارہ

١٣ نومبر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے-جس دن پاکستان میں محنت کش طبقات اور طالب علموں کے حقوق کے لئے سرگرم رہنما حسن ناصر کو شاہی قلعہ کی بدنام جیل میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا-اور ان کی ہلاکت کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی-
پاکستان کی مزدور تحریک کا یہ پہلا شہید تو تھا ہی-یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دوسرا بڑا سیاسی قتل بھی تھا-جس کا آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا-
حسن ناصر حیدر آباد دکن ہندوستان کی ریاست کی ایک نواب فیملی سے تعلق رکھتے تھے-مسلم لیگ کے بانی اور ڈھاکہ کی معروف نواب وقار الملک ان کے نانا لگتے تھے-لکین حسن ناصر زمانہ طالب علمی میں حیدر آباد میں کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے-انھوں نے حیدر آباد کے علاقہ تلنگانہ میں کسانوں کی مسلح بغاوت میں معروف ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین کے ساتھ حصہ لیا تھا-وہ پاکستان اس وقت آئے جب ١٩٤٨ میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پاکستان میں الگ سے کیمونسٹ پارٹی "کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان"کے نام سے بنانے کی اجازت دے ڈالی-وہ کراچی کی کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب کے گئے-انھوں نے کراچی میں خاص طور پر اور سندھ میں عام طور پر مزدوروں ،کسانوں،ریڈکل دانشوروں اور طالب علموں کو منظم کرنے کے لئے قائم کی گئی تنظیمیں "ڈیموکرٹیک سٹوڈنٹس فیڈریشن " "کسان رابطہ کیمٹی " "انجمن ترقی پسند مصنفین "کو مضبوط کرنے کے لئے کام کیا-اور کراچی میں جلد ہی محنت کشوں اور طالب علموں کی ایک مضبوط تحریک کی بنیاد رکھ دی-
حسن ناصر ابھی پاکستان نہیں آئے تھے کہ پاکستان کی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئے تھے-کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے اکثر عہدے داروں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے-لکین اس کے باوجود حسن ناصر اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان میں جاگیرداری .گماشتہ سرمایہ داری کے خاتمے ،مزدور دوست ریاست کے قیام اور ملک میں سوشلزم کے قیام کے لئے جدوجہد جاری رکھی-
حسن ناصر کا شمار پاکستان کے ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں جاگیردار سیاست دانوں ،وردی ،بے وردی نوکر شاہی ،رجعت پسند مولوی اور لوگوں کا خون چوسنے والی سرمایہ دار کلاس کے خلاف جدوجہد کی-
پاکستان بننے کے ساتھ ہی اس ملک کے حکمرانوں نے ریاستی مشینری اور مولوی کے پروپیگنڈے کے زور پر پاکستان میں آمرانہ طرز حکومت قائم رکھا -وعدے کے باوجود مسلم لیگ نے جاگیرداری کا خاتمہ نہ کیا-زرعی اصلاحات نہ کی گئیں،ملک میں صنعتی انقلاب کے لئے کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا،سیاسی آزادی کو سلب کر لیا گیا-دستور ساز اسمبلی کے انتخابات نہ کرائے گئے-صوبائی خود مختاری کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا -اردو سمیت پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا-اسی طرح طالب علموں ،مزدوروں اور پروفیشنل مڈل کلاس کو اپنی یونینز بنانے کے حق سے محروم رکھا گیا-ان زیادتیوں کی وجہ سے پورے ملک میں طالب علموں .مزدوروں اور کسانوں نے شہری مڈل کلاس کے انقلابی دانشوروں کے ساتھ ملک کر تحریک اور مزاحمت کا آغاز کیا-حسن ناصر اس تحریک کا ہر اول دستہ تھے-
استحصالی طبقات کی محافظ ریاست کے حکمران اس تحریک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئے-اور انھوں نے ١٩٥١ میں کیمونسٹ پارٹی اور اس کی حامی تنظیموں پر ریاست کے خلاف سازش کرنے اور چند فوجی افسروں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگا کر پابندی لگا ڈالی-اور کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر ،فیض احمد فیض،مرزا ابراہیم ،میجر اسحاق،ظفر الله پوشنی وغیرہ کو گرفتار کر لیا -حسن ناصر بھی حکومت کو مطلوب تھے-لکین وہ کافی عرصۂ تک ہاتھ نہ آئے-تیرہ نومبر ١٩٥٢ کو ان کو پولیس نے گرفتار کیا -اور لاہور کی بدنام زمانہ جیل شاہی قلعہ میں ان کو منتقل کر دیا گیا-یہاں پر ان کو انسپکٹر جنرل پولیس قربان علی خان کے حکم پر اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کی وہاں پر موت ہوگئے-یہ تیرہ نومبر ١٩٦٠ کی تاریخ تھی-ایوب خان اس وقت برسراقتدار تھا-اس واقعہ کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی -لکین سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ سیاسی قتل ہے-حسن ناصر کی والدہ ہندوستان سے پاکستان آئیں-انھوں نے قبرستان میں حسن ناصر کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ حسن ناصر کا خون رائیگاں نہیں جائے گا-اور کئی اور حسن ناصر جنم لیں گے-
تاریخ نے اس بات کو سچ کر دکھایا کہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایوب خان کی آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی-محنت کشوں نے پورے ملک میں ٦٨-٩ میں انقلابی تحریک چلائی-اس تحریک کے نتیجہ میںپی پی پی جیسی مزدور روایت کی حامل پارتی بھی سامنے آئی -اور ملک میں جہموریت بھی آئی -محنت کشوں،کسانوں ،طالب علموں کو پہلی بار حقوق بھی ملے-لکین یہ تحریک اپنے منتقی انجام "سوشلسٹ انقلاب "کی منزل تک نہ پہنچ پائی-
آج جب حسن ناصر کی شہادت کا دن آیا ہے-تو پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کی بربریت کے خلاف تحریک چل رہی ہے-پاکستان میں محنت کش ،طالب علم ،کسان ،متوسط طبقہ کے انقلابی لوگ بھی سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لئے باہر نکلنا چاہتے ہیں-
طالب علم مسلسل تعلیمی اداروں کی نجکاری ،تعلیمی نوکر شاہی کی طرف سے بدترین استحصال کا شکار ہونے،فیسوں میں اضافہ ،سمسٹر سیسٹم ،ڈگری اجراء کے دورانیہ میں اضافہ ،انترے ٹیسٹ سمیت امتحانی عمل کو استحصالی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے طریقہ ،یونیورسٹیوں میں وی سی سے لیکر رجسٹرار ،ایڈمن اور کنٹرولر امتحانات کی نوکر شاہی کا ہاتھوں سخت پریشان ہیں-موجودہ نظام تعلیم بہت واضح انداز میں صرف دولتمندوں کی خدمت کر رہا ہے-ریاست بلواسطہ طور پر تعلیم جیسے بنیادی حق کی محنت کشوں کو مفت فراہمی کے منصب سے بھی دست بردار ہوچکی ہے-ایک طرف طالب علموں کو یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں کی نوکر شاہی کے مظالم کا سامنا ہے-دوسری طرف ان کو تعلیمی بورڈز اور ہائر ایجوکیسن کیمشیں کی چیرہ دستیوں کا سامنا ہے-اس وقت ملک میں سرمایہ داروں کے مفادات کی ترجمان حکمران کلاس سارے اقدامات ایک چھوٹی سی امیر اقلیت کو نوازنے کے لئے اٹھا رہی ہے-پاکستان میں طلبہ اور طالبات کو اشد ضرورت ہے کہ وہ ایک طرف تو حکومت اور نجی شعبہ کی طرف سے تعلیم کو کاروبار کے طرز پر چلانے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں -ان کو سرمایہ داری کے تعلیمی ماڈل کو رد کرنے کے لئے خود کو منظم کرنا ہوگا-اور تعلیم کو مکمل طور پر ریاست کی ذمہ داری قرار دینے اور اس کو کاروبار کے طور پر چلانے پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کرنا ہوگا-یونورستوں ،کالجوں اور اسکولوں کو جمہوری طور پر چلانے اور ان کی انتظامی امور کو طلبہ،اساتذہ اور شہریوں کی منتخب کونسلوں کے تحت چلانے کا نظام لانے کا مطالبہ بھی کرنا ہوگا-اس کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو سامراج اور عالمی سرمایہ داری سے جڑی پاکستان کی معشیت کو آزاد کرانے کے لئے محنت کش طبقات کے ساتھ بھی ملنا ہوگا-
اسی طرح اس ملک کی ورکنگ کلاس کے سر پر نکالے جانے کی تلوار لٹک رہی ہے-زیادہ سے زیادہ لوگ سرکاری ،نعیم سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں سے نکالے جا رہے ہیں-یا ان کو جز وقتی ملازم کے طور پر بھرتی کیا جا رہا ہے-ملک میں انفارمل لیبر سیکٹر میں اضافہ محنت کشوں کے حالات میں ابتری کی علامت ہے-ترید یونین رائیٹس پر حملہ ہو رہا ہے-اداروں کو بیچنے اور ان اداروں کے ملازوں کو فارغ کر دئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے-
اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کا درمیانہ طبقہ جس کی بہت زیادہ تعداد نچلے متوسط طبقے کی ہے-وہ بھی بد حالی کا شکار ہے-اساتذہ ،ڈاکٹر ،وکیل ،انجینئیر ان کی اکثر نچلی پرتیں بدحالی کو پہنچ گئی ہیں-بے روزگاری کا سیلاب ہے-اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے تیل،بجلی ،گیس کی قیمتوں میں اضافہ .بنیادی ضرورت کی چیزوں پر مختلف قسم کے وفاقی صوبائی ٹیکسز اور اس کے ساتھ سرمایہ داروں کے کارٹیلز بنا کر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کی روش ورکنگ کلاس کی تعداد میں مزید اضافہ کر رہی ہے-
اس صورت حال میں ہمیں حسن ناصر شہید کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے -فیصلہ کن راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے-اس ملک میں عوامی طبقات کو مل کر سرمایہ داری نظام پر مشتمل ریاستی ماڈل کے خلاف ایک بڑی مزاحمتی تحریک کی تعمیر ضرورت ہے-
آئیے!
مل کر سرمایہ داری مخالف تحریک کی تعمیر کریں-ملک سے استحصالی نظام کے خاتمہ تک جدوجہد رکھیں-
انقلاب کے تین نشان ---------طلبہ -مزدور -کسان
منجانب :پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان -نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان ،انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن ،انڑنیشنل سوشلسٹ پاکستان

Wednesday 26 October 2011

موجودہ سرمایہ داری نظام کے تضادات

موجودہ سرمایہ داری نظام کے تضادات


انسانی زندگی کی تشکیل تضادات سے مل کر ہوتی ہے-ذرا غور کیجئے کے ایک طرف تو اوسط انسانی عمر میں ١٠ سال کا اضافہ ہو چکا ہے-جبکہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں بھی یہ ٤٨ سے بڑھ کر ٦٣ ہو چکی ہے-اس کا سبب بہت سے عوامل ہیں -سائنس کا زراعت پر اطلاق ہے،صحت کی سہولتوں میں اضافہ ہے،اور شرح اموات میں کمی ہے،یہ محض نصف کہانی ہے -دوسری طرف اس کہانی کا دوسرا رخ بھی موجود ہے-دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لیکر اب تک ١٤٩ جنگیں ہو چکی ہیں-ان جنگوں میں ٢ کروڑ ٣٠ لکھ لوگ مارے گئے ہیں-یہ تقریباًکینڈا کی کل آبادی کے برابر تعداد بنتی ہے-اگر سالانہ اوسط کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ تعداد ١٩ویں صدی میں مارے جانے والے لوگوں سے دو گنا بنتی ہے-اور سات گنا زیادہ ہے ١٨ویں صدی میں سالانہ مارے جانے والے لوگوں سے-اگر ہم اپنے جائزے کو بڑھا ڈالیں اور اس کو ساری انیسویں صدی تک کر لیں تو ہمارا دور اور زمانہ زیادہ خون آشام کہلائے گا-یہ کسی بھی حساب سے پستی بنتی ہے-لکین ان دو پہلوؤں کو دیکھئے تو پتا چلے گا کہ یہ انسانی ترقی کا واصف ہے کہ اس سے زندگی کی تعمیر اور تخریب دونوں پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں-


دنیا میں ڈاکٹرز کی تعداد ١٩٦٠ میں ١٦ لکھ تھی تو وہ ١٩٩٠ میں ٥٧ لکھ ہو گئی -یہ ترقی ہے-دوسری طرف اس کے متضاد ١٩٦٠ میں فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ اسی لخت تھی جو ١٩٩٠ میں دو کروڑ ساٹھ لکھ ہو گئی -یہ پستی کی طرف ایک سفر ہے-اسی عشرے میں فی طالب علم ٤٨٦ ڈالر تعلیم پر خرچ بڑھ کر ١٠٤٨ ڈالر ہوگیا-لکین اس کے متضاد ایک فوجی پر خرچ ١٨١٤٠ ڈالر سے بڑھ کر ٢٦٥٣٦ ڈالر ہوگیا-بی ٹو سٹیلتھ بمبار طیارے کی قیمت ٢ ارب ٣٠ کروڑ ڈالر بنتی ہے-یہ قیمت اس طیارے کے وزن جتنے تین گنا زیادہ سونے کی قیمت کے برابر بنتی ہے-


ہم جہاں بھی دیکھیں گے ہمیں ایسے تضادات نظر آ جائیں گے-آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک امریکہ میں ہفتہ وار فی کس آمدنی میں ١٩٧٣ سے کمی آ رہی ہے-یہ کیسے ہو سکتا ہے؟اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ امریکہ میں بیس امیر ترین آدمیوں اور بیس غریب ترین لوگوں میں جو فرق ہے وہ مصر سے زیادہ ہے-یہ انڈیا ،ارجنٹائن اور انڈو نیشیا سے بھی زیادہ ہے-یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکہ جو کہ سب سے زیادہ صنعتی لہٰذ سے ترقی یافتہ ملک ہے -وہاں بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہو-اور جب کے صحت کے شعبہ میں لوگوں کی تعداد دو گنا ہو چکی ہو-امریکیوں کی اوسط عمر بھی کم ہو رہی ہو،اور ڈاکٹر تک رسائی بھی کم ہو رہی ہو؟یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برطانیہ میں کساد بازاری کے بعد بھی برطانوی سماج پہلے سے زیادہ پیدا وار دے رہا ہو اور وہاں کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لیکر سے نیچے رہ رہی ہو؟


یہ تضادات ہمیں اور زیادہ شدت کے ساتھ نظر آئیں گے اگر ہم اپنی توجہ معشیت سے ہتا کر سیاست کی طرف کر لیں-روس اور مشرقی یورپ میں منڈی کی معشیت کو متعارف کراتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سے توازن اور استحکام آئے گا-لکین اس سے تو اس کے الٹ آدم توازن اور عدم استحکام دیکھنے کو ملا-سرد جنگ کے خاتمہ سے امن اور خوشالی آنے کی نوید سنی گئی تھی -لکین ہم نے دیکھا کہ گلف وار کو چھوڑ کر بھی بھی دنیا نے ٢٩ جنگوں کو ہوتے دیکھا-اور ١٩٩٢ کا سال گزشتہ ١٧ سالوں سے زیادہ خون ریز سال ثابت ہوا-دوسری جنگ عظیم کی ٥٠ ویں سالگرہ پر کی مغربی ملکوں میں فسطائی تنظیمیں اس عروج پر پہنچ گئیں جہاں وہ جنگ سے پہلے تھیں-١٩٩٠ میں جب ترقی یافتہ ملکوں میں محنت کشوں کی تحریکوں کو ماضی کا قصہ قرار دیا جا رہا تھا تو بھی اٹلی ،سپین ،یونان ،کینیڈا اور فرانس میں بڑی بڑی ہڑتالیں دیکھنے کو ملیں-


ان تضادات کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں کو یہ احساس ضرور ہوا کہ ان تضادات سے بھری اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کے لئے کلاسیکل مارکسی سیاسی اور دانشوارانہ روایت کی طرف جانا چاہئے-کیونکہ اسی روایت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام تضادات سے بھرا ہوا نظام ہے-اور اس نظام میں پیدا وار کو ترقی دینے والی قوتیں ایسے ملکیتی رشتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جو ان کو کام کرنے اور آگے ترقی کرنے سے روکتے ہیں-اور یہ کارل مارکس تھا جس نے یہ اصرار کیا تھا کہ جو نظام ایسے تضادات کے ساتھ کام کر رہا ہو اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام ہی ہوا کرتا ہے-اس کا معروف بیان ہمیں بتاتا ہے......


"ترقی کے ایک خاص مرحلے پر سماج کی جو پیدا واری قوتیں ہوتی ہیں وہ پیداوار رشتوں یا سماج کے قانونی اظہار مطلب ملکیتی رشتوں سے تصادم میں آ جاتی ہیں جن کے ساتھ مل کر ابھی تک انھوں نے کام کیا ہوتا ہے "


جب پاپولر تحریکوں کے ہاتھوں مشرقی یورپ اور روس میں ریاستی سرمایہ داری پر کھڑی مشیت کا انہدام ہوا تو کسی نے بھی اس سماجی تبدیلی کا مارکسی بنیادوں پر جائزہ نہ لیا-کسی نے بھی تیسرے عشرے میں داخل ہونے والے سرمایہ داری کی نمو سے پیدا ہونے والے بحران کا اس بنیاد پر جائزہ نہ لیا-نہ ہی کسی نے بین الاقوامی پیدا وار اور نیشن سٹیٹ کے درمیان تباہ کن تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی-اس روایت کے تحت جنوبی افریقہ میں آپرتھائد ریاست کے خاتمے کے باچین سمیت دوسرے ملکوں میں آنے والے بحران کو نہیں دیکھا-ہم نے جو اوپر سرمایہ داری کے تضادات کا جو تجزیہ کیا یہ دراصل اس جدلیاتی طریقہ کار کا ثمر ہے جو کلاسیکل مارکسی روایت سے ہمیں میسر آتا ہے-


سرمایہ داری کے تضادات کا تجزیہ اور اس تجزیہ پر مبنی ایک سائنسی حل ہمیں تبھی میسر آسکتا ہے -جب ہم مادی جدلیاتی طریقہ کار کے تحت ان تضادات کا جائزہ لیں-ورنہ ہم الجھ جائیں گے -اور ہمارا تجزیہ بھی خام ہوگا-


جدلیات کیا ہے ؟


سرمایہ داری سماج کا ابھار ١٦ ویں صدی میں ہوا -اس نظام نے محنت کی تقسیم کی -جس کے نتیجہ میں فرد الگ تھلگ ہو کر اس سماج کی وہ اکائی بن گیا جس پر اس سماج کی تشکیل ہوئی تھی-اجرتی مزدور اپنی قسمت لیبر مارکیٹ میں آزماتے -جہاں وہ بطور فرد کے دوسرے فرد کے مقابلے میں آتے تاکہ وہ اجرت پر ملزم ہو جائیں-یہ اجرتیں دوسری منڈیوں میں خرچ ہوتی-جہاں فرد بطور صارف فرد فروخت کرنے والے سے خریداری کرتے-پھر سرمایہ داری سماج میں خفیہ رائے دہی سیاسی روایت بن گئی-آرٹ جو پہلے چھوٹی سی اقلیت کا اور بعد میں عمومی طور پر مذہبی عبادت کے مشترکہ تجربے کا اظہار بننے کی بجائے فرد کی خواہشات کا اظہار بن گیا -اس کا مطلب فرد کی محبت ،جنسی تشفی ،دولت ،مقام و مرتبہ اور مسرت ہو گیا-مختصر اس کا مطلب فرد کی خواہشات کا پورا کرنے کا آلہ بن گیا-آرٹ کی بھی سی شکلیں پبلک کے تجربہ پر انفرادی تجربہ کو اولیت دینے لگیں-پرنٹنگ نے بائبل کے ذاتی مطالعہ کو فروغ دیا-اور پھر مشترکہ طور پر اس کو پڑھنے کی مذہبی تقریب کی جگہ ناول کو پڑھے جانے کو دے ڈالی-اور تھیٹر بھی اس کی جگہ لینے لگا-ٹی وی نے سینما اور تھیٹر کی جگہ لی -سی ڈی یا ٹیپ نے پبلک پرفارمنس کی جگہ لے لی-اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ آرٹ تک رسائی چاہئے یہ نجی طور پر و یا پبلک طور پر یہ صرف فرد کی طرف سے خریداری کا عمل سر انجام دینے پر ہی ممکن ہو گئی-


یہ جو تجربے کو حصوں میں بانٹنے کا عمل تھا -آج کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے-یہ تقسیم سرمایہ داری نظام کی ابتدائی نمو کے دور میں اس قدر زیادہ نہیں تھی-آج یہ تقسیم بطور سماجی اور نظریاتی حقیقت کے بہت زیادہ نمایاں ہو چکی ہے-اسکول ہوں یا یونیورسٹیاں سب آج بھی آرٹس،سائنسز کے الگ الگ پڑھائے جانے پر اصرار کرتی ہیں-ان کا اصرار ہے کہ لسانیات ،تاریخ ،انجینئرنگ اور سماجیات ،شاعری اور کامرس ایک دوسرے سے الگ اور آپس میں کوئی تعلق رکھنے والے علوم نہیں ہیں-


اخبارات میں بےروزگاری اور خود کشی کی شرحوں کو الگ الگ خبر بنا کر پیش تو کر دیا جاتا ہے-لکین ان کے باہمی تعلق پر بات نہیں ہوتی-غربت کی شرح آپ کو صفحۂ نمبر چار پر اور جرائم کی شرح چھے نمبر پر رپورٹ ہوتی ہوتی ہے،آرٹ پر تنقید لٹریری سپلیمینٹ میں نظر آتی ہے-پینٹنگ کی فروخت بزنس صفحۂ پر-اور سٹوڈیو کا ادغام فنانشل خبروں میں نظر آئے گی-


زیادہ تجرید سے کام لیں تو ہم اس قسم کی دنیا کی تفہیم پر مبنی نظریات پر بہت سی سائنسی اپروچ کے نام پر تجربات،منتقی اثباتییت یا فارمل لاجک کے نام سے ملتی ہیں-اس قسم کی فکر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کسی بھی صورت حال کا جب ہم پہلی دفعہ مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ جیسے ظاہر ہوتی ہے -ویسے ہی اس کو قبول کر لیا جائے-اور تقسیم شدہ حالت میں جن میں ہم ان حقائق کو دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں ناگزیر اور نہ تبدیل ہونے والی خصوصیات پر مبنی لگتے ہیں-اور اس میں غیر متغیر یوسف کی حامل چیزیں لگتی ہیں-اور یہ حقایق ہمیں کسی تاریخی ارتقا کا نتیجہ نہیں لگتے-ان حقایق کے درمیان کسی تعلق کو اہم خیال نہیں کیا جاتا -اور ان کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے-اور ان حقائق کی ترکیب کو کم یا زیادہ مستحکم خیال کیا جاتا ہے-اور اگر یہ کسی ترقی کے عمل میں داخل بھی خیال کر لئے جائیں تو ان کو سادہ طور پر علت اور معلول کی اصطلاح میں بیان کر دیا جاتا ہے-ماہرین حیاتیات رچرڈ لیونس اور رچرڈ لیونٹن نے اس طریقہ کار کو کارتیسی تخففیت کا نام دیا تھا-اور انھوں نے کہا تھا کہ یہ طرز فکر چار اوصاف رکھتی ہے-


١-کوئی بھی کلی نظام فطری اکائیوں یا یونٹس پر مبنی نظام ہوتا ہے-


٢-یہ اکائیاں الگ تھلگ ہوتی ہیں جن کا مجموعہ مل کر نظام بناتا ہے-یہ اجزاء اپنی خصوصیات رکھتے ہیں-اور یہ ان کو انفرادیت کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے کلی نظام کو دیتے ہیں-


٣-یہ اکائیاں اپنے آپ میں یکجنسی ہوتے ہیں-


٤-سبب اپنے مسبب سے الگ ہوتے ہیں-سبب موضوع کے خواص ہوتے ہیں جبکہ مسبب معروض کا-جبکہ سبب مسبب سے آنے والی معلومات پر رد عمل دے سکتے ہیں-اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون علت والا موضوع ہے اور کون معلول معروض -


جب اس کسم کی فکر کسی متضاد حقیقت کو تسلی بخش طریقہ سے بیان کرنے سے قاصر رہتی ہے تو سرمایہ داری کے حامی دو طرح کی حکمت عملی اپناتے ہیں-ایک طریقہ تو عقلیت پسندی کے ساتھ اس حقیقت کے ایسے پہلوں پر زور دینے کا ہوتا ہے جس سے اپنی فکر کو ٹھیک ثابت کیا جا سکے-یا پھر مافوق فطرت قیاس کا سہارا لیتے ہوئے اسرار پسندی کو اپنا لیا جاتا ہے-


اس قسم کی فکر کیونکہ دنیا کو کسی ایک پہلو سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ اکثر ایک دوسرے کی حریف بن کر سامنے آتی ہیں-جارج لوکاش اس کو اینٹی نامنیز وف بورزوا تھاٹ کہتا ہے-اور اس کو طبقہ اور شعور میب تفصیل سے بیان کیا ہے-


جدید جدلیات انہی تضادات اور جس سماج سے یہ تضادات جنم لیتے ہیں سے ابھرتی ہے-جدید جدلیات اس قسم کے طرز فکر کو رد کرنے کے لئے تین اصولوں پی انحصار کرتی ہے-یہ تین اصول "کلیت،تغیر ،اور تضاد ہیں-اگر ان اصولوں کو الگ الگ لیا جائے تو جدلیاتی فکر کی تعمیر نہیں ہو سکتی-ان کو ساتھ لیکر اور اکھٹے لے کر چلنے سے جدلیاتی فکر کی تعمیر ہوتی ہے-اب ہم ان کو باری باری دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں-


کلیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا جن عناصر سے مل کر بنی ہے -وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں-اور مل کر ایک کل کی تشکیل کرتے ہیں-پیداوار ایک کلی عمل ہے نہ کہ یہ محض انفرادی جدوجہد کا نتیجہ ہے-منڈی ایک سماجی ادارہ ہے-نہ کہ یہ انسانی رویے کا فطری نتیجہ-غربت،جرائم.بے روزگاری،اور خود کشی ،آرٹ اور بزنس،زبان اور تاریخ،انجینئرنگ کو الگ الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ہے-بلکہ ان کو ایک کلیت کے اندر رکھ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے-


پھر جب ہم ان اصطلاحوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو ان کے مطلب بھی بدل جاتے ہیں-جب ایک دفعہ ہم غربت اور جریم میں باہمی رشتہ دریافت کر لیتے ہیں-تو ہم اس کو کرمنل جسٹس سسٹم سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے جب کے ان کو الگ الگ میدان سمجھنے کی روش موجود ہے-جدلیاتی طرز فکر میں کسی بھی جز کو اس کی کلیت کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے-اور اس کا باقی اجزاء سے بھی تعلق دیکھا جاتا ہے-دوسرے لفظوں میں جز کل بناتے ہیں اور کل جز بناتا ہے-


جدلیاتی تجزیہ میں کل ہی اپنے اجزاء سے کچھ زیادہ قسم کی چیز نہیں بنتا بلکہ یہ اجزاء بھی اس کل میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اپنی انفرادی حالت سے کچھ زیادہ ہی ہوجاتے ہیں-


حقیقت یہ ہے کہ ان اجزاء کی خصوصیات جو ہوتی ہیں وہ ان کے ایک کل میں جڑے ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں-یہ خواص کل میں جڑنے کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کم کے دوران میں وجود میں آتے ہیں-ایک شخص کتنا ہی اپنے بازوؤں کے ساتھ اڑنے کی کوشش کرے نہیں اڑ سکتا-نہ ہی کوئی گروہ مل کر ایسا کر سکتا ہے-لکین لوگ اڑتے ہیں-مگر ایک ایسی سمجی تنظیم کے نتیجے میں جو کہ ہوائی جہاز ،پائلٹس اور فیول کو پیدا کرتی ہے-تو سماج پرواز نہیں کرتا مگر سماج کے رہنے والے لوگ اڑان بھرتے ہیں-جو ایسی خاصیت حاصل کرتے ہیں ج ان کو سماج سے باہر حاصل نہیں ہو سکتی تھی-تو افراد کی جو جسمانی حدود ہوتی ہیں سماجی عمل سے ان کی نفی ہو سکتی ہے-تو اس طرح سے کل صرف اس کے اجزاء کا باہمی عمل کا نام نہ ہے بلکہ کل کے بھی ان اجزاء پر کام کرنے کا نام ہے-


اس اپروچ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی بھی لحاظ سے تخفیفی رویہ نہیں رکھتی-یہ فرد کے کردار کو کل کے حق میں ختم نہیں کرتی -نہ ہی یہ سماج کے کردار کو محض اس کے اجزاء کے کردار تک محدود کرتی ہے-جدلیاتی مادیت کل اور اس کے اجزاء کے باہمی عمل کے نتیجہ میں کیفیتی صورت حال کو دکھلاتی ہے-


کلیت تنہا جدلیات کی تعریف متعین نہیں کر سکتی-کیونکہ بہت سے غیر جدلیاتی نظریات بھی کلیت کا نظریہ رکھتے ہیں-جیسے مذہبی فکر بھی اےکقسم کی کلیت کی قائل ہوتی ہیں-لکین اس قسم کی کلیت کے نظریات میں یہ چیز مشترکہ ہے کہ یہ کلیت کو ایک بے حرکت ساکت اور جامد شے خیال کرتی ہیں-ان کے خیال میں اوپری سطح پر ساری اتھل پتھل کے باوجود ان کے نیچے ایک ناقابل تغیر اور ابدی سچ پایا جاتا ہے-اور یہ سچ ناقابل تغیر خدا کی ذات بھی ہو سکتی ہے،ین اور یانگ کے درمیان نہ ختم ہونے والی توازن کی تلاش بی،یا وقت سے ماوراء انسانی اقدار اچھی اور بری -اس قسم کے خیالات میں جس قسم کی کمی ہوتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ کلیت کو تبدیلی کا ایک عمل خیال نہیں کرتیں-اور اگر یہ تبدیلی کو کلیت کا حصہ ماں بھی لیں تو اس کو یہ توازن حاصل کرنے کا ابتدائیہ خیال کرتی ہیں اور کچھ نہیں-فری مارکیٹ کی معشیت انہی اصولوں پر کام کرتی ہے-اس کا کہنا ہے کہ رسد اور طلب خود بخود آپس میں ہم آہنگ ہو جائیں گی اگر ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے-حکومتیں اور ٹریڈ یونین ان میں مداخلت نہ کریں-عدم توازن توازن سے ،بحران استحکام سے بدل جائے گا اگر یہ روکاوٹیں دور کر ڈی جائیں -


تبدیلی،ترقی ،عدم توازن اس حقیقت کا حصہ ہوتی ہیں جس کو بیان کرنے کے لئے جدلیاتی فکر کی تشکیل ہوتی ہے-ہیگل کے نظام فکر کی برتری کا جو سب سے زیادہ اہم سبب تھا وہ اینگلس کے نزدیک یہ تھا کہ"


"پہلی مرتبہ دنیا کی فطری ،تاریخی اور دانشوارانہ رونمائی ایک ایسے پروسس کے طور پر ہوئی جو مسلسل حرکت میں ہے،تبدیل کی زد میں ہے،انقلابی عمل سے گزر رہا ہے،ترقی پذیر ہے-پہلی دفعہ اس اندرونی اور داخلی تعلق کو بیان کرنے کی کوشش ہوئی جو اس حرکت کو مستقل کل میں تشکیل دیتا ہے-ورس کو ترقی پذیر دکھاتا ہے-اس قسم کی فکے کی رو سے انسان کی تاریخ محض بے کی مقصد کے بغیر ہونے والے تشدد کی کہانی نہیں رہتی -جس کی بالغ فلسفیانہ عقل تردید کرتی ہو -اور اس کو جل از جلد بھلانے پر زور دیتی ہو-بلکہ انسانی تاریخ انسان کے ارتقا اور ترقی کے ایک پروسس کے طور پر سامنے آئی"

لکین کلیت اور تبدیلی کو اگر اکٹھا بھی لے لیا جائے تو یہ مکمل طور پر جدلیاتی نظام کو بیان نہیں کرتیں-ان دو کے ساتھ ہمیں کچھ عمومی اشارے بھی کرنے پڑتے ہیں-اس شے کے بارے میں کہ یہ تبدیلی کہاں سے آتی ہے-اکثر نظریات تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے سادہ طور پر سبب اور مسبب کا بیان کرتے ہیں-جیسے کہا جاتا ہے کہ مغلوں کو نادر شاہ نے شکست دی اور اس کے بعد انگریزوں نے ١٨٥٧ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اپنی حکومت قائم کرلی اور پھر وہ تحریک آزادی کے نتیجہ میں تقسیم کر کے چلے گئے-یہ جو واقعات کا اس طرح سادگی سے بیان ہوتا ہے یہ تبدیلی کو بیان تو کرتا ہے -لکین اس کی تشریح نہیں کرتا-

ہیگل اس قسم کے بیانیہ کو "بری لا محدودیت "قرار دیتا ہے-کیوں کہ یہ نہ ختم ہونے والے سبب ،مسبب کے سلسلے کو جنم دیتا ہے-اس ترہ کے طرز فکر میں خامی یہ ہوتی ہے کہ یہ سبب اور مسبب کے بیان میں جو اصل سبب ہوتا ہے اس کو ان سبب اور مسبب کے دائرہ سے باہر کسی اور شے کو قرار دیتے ہیں-مطلب یہ ہوتا ہے کہ وجہ اور سبب سسٹم سے باہر ہے-جب کہ جدلیاتی فکر تبدیلی کا سبب نظام کے اندر ہی تلاش کرتا ہے-اور اگر تبدیلی نظام کے اندر ہی اپنی وضاحت رکھتی ہے تو پھر سبب اور مسبب کا یک خطی ماڈل یہ نہیں اپنا سکتا-کیوں کہ اس سے ہم جس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں -وہ حل تو نہیں ہوگا -بلکہ ہم وہیں آجائیں گے جہاں سے ہم چلے تھے-اگر تبدیلی کسی نظام کا داخلی نتیجہ ہے تو پھر یہ اس نظام کی اندرونی صفات کے تضادات ،عدم استحکام اور ارتقا کا نتیجہ ہونا چاہئے -

تو کلیت اور تبدیلی کے ساتھ ساتھ تضاد وہ چیز ہے جس کے بغیر جدلیاتی اپروچ کو بیان نہیں کیا جا سکتا-اور تضاد وہ چیز ہے جس سے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ایک سماجی طبقے کی جگہ دوسرا سماجی طبقہ کیسے لے لیتا ہے-اور کیسے طبقات کے درمیان تصادم ہوتا ہے جو اس نظام کی تشکیل کرتے ہیں اور یہ تصادم اس نظام کی نفی تک لیجا کر نئے سماج کی تشکیل کا سبب بن جاتا ہے-یہ تشریح کی ایک شکل ہے-کیونکہ تشریح خود بھی ان تجرباتی حالت پر انحصار کرتی ہے جو کہ کسی سماج میں ہوتے ہیں-ٹھیک ٹھیک تضادات اور ان کا نتیجہ اسی کے مطابق تبدیل ہوتا ہے-

ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ جدلیات کی ایک عمومی شکل ہے-یہ ایک داخلی متضاد کلیت ہے جو مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے-یہ تبدیلی کا مکمل ایک پروسس ہے-تضاد کا جو اصول ہے یہی تخفیفیت کی راہ میں روکاوٹ ہے-کیونکہ دو متضاد عناصر ایک دوسرے میں تحلیل نہیں ہوسکتے بلکہ وہ ایک دوسرے سے متصادم ہو کر ایک تالیفی عمل سے گزرتے ہیں اور نئی شے بناتے ہیں-جو کہ ان میں سے کسی ایک کے برابر نہیں ہوتی-

جدلیاتی طرز فکر کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس کے نزدیک اجزاء اور ان کا کل ایک دوسرے کے مماثل نہیں ہوتے-اجزاء اور کل کہیں بھی ایک دوسرے میں گم نہیں ہوتے-اجزاء اور کل ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل عمل پذیر رہتے ہیں-تالیفی عمل سے بننے والا کل کبھی بھی تخفیفی نہیں ہوا کرتا-تو اس ترہ سے تالیف بھی جدلیاتی اپروچ کو بیان کرنے والی اہم اصطلاح ہے-تو ہم کہ سکتے ہیں کہ کلیت،تبدیلی ،تضاد اور ان سے جنم لینے والی تالیف جدلیات کی اہم اصطلاح ہیں-مارکسی روایت میں یہ دانشوارانہ اوزار نہیں بلکہ حقیقی مادی پروسس ہیں-تو یہ مادی جدلیات ہے-

مارکس اور اینگلس نے جب اس کی جڑیں فطرت اور سماج میں ہونے والے ارتقاء میں تلاش کیں تو یہ انقلابی اپروچ میں ڈھل گئی-ہیگل کی فکر کے دایاں اور بیان رجحانات کے حامل لوگوں نے غلطی یہ کی تھی کہ وہ اپنے کام میں جدلیات بارے سوچتے ہوئے محنت کش طبقے کی خود اپنی سرگرمی کو بھول گئے تھے-اور اس سرگرمی کی ٹھیک ٹھیک سمجھ ہی جدلیات کے مادی اطلاق کو ممکن بناتی ہے-

یہاں پر جدلیات کے نام نہاد تین قوانین کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے-یہ تین قوانین یہ ہیں

١-تضاد کا قانون ٢-مقدار کے کیفیت میں بدلنے کا قانون ٣-نفی کی نفی کا قانون

یہ تین اشکال وہ ہیں جن میں جدلیات بعض اوقات خود کو ظاہر کرتی ہے-لکین یہ قوانین ایسے نہیں ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ جدلیاتی تبدیلی صرف اسی راستے سے آتی ہے-

ان کو ہم اوپر جدلیات کی کی گئی وضاحت کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں-مارکس اور اینگلس نے بھی اس پر زور دیا تھا کہ ان تین کو حقیقی تضادات کے ارتقاء کی تلاش کے مشکل تجرباتی ٹاسک کا مترادف خیال نہیں کرنا چاہئے-اور نہ ہی یہ کوئی ماوراء تاریخ کوئی کنجی ہے جس کو اس وقت استعمال کر لیا جائے -جب کسی بھی قسم کا تاریخی علم موجود نہ ہو-لکین اگر ان کو احتیاط کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ جدلیاتی تفہیم میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں-

تضاد کا قانون سادہ طور پر تضاد کو بیان کرنے کا طریقہ ہے-جیسے فرد اور سماج جز اور کل ہیں-اور یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں-ایک مثال سرمایہ داروں اور مزدوروں کی ہے-یہ سرمایہ داری نظام میں ایک دوسرے کے متضاد پول ہیں-ایک پیدا وار کے سرچسمے پر قابض ہیں -جب کہ دوسرے خالی ہاتھ تو وہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں-ان میں کوئی ایک دوسرے کے بنا رہ نہیں سکتا -دونوں کے درمیان تصادم ان کا داخلی تضاد ہے -جس پر سرمایہ داری نظام حرکت میں آتا ہے-

مداری تبدیلی کے کیفیتی تبدیلی میں بدل جانے کا قانون بتاتا ہے کہ کیسے مزدور پہلے کام کے اوقات میں کمی اور اجرتوں میں اضافہ کے لئے کسی ایک فیکٹری میں ہرتال کرتے ہیں -یہ مقداری تبدیلی اس وقت کیفیتی تبدیلی بن جاتی ہے جب خاص ہڑتالیں عام ہرتال میں بدل جاتی ہے-اور پھر یہ ایک سیاسی تحریک بن جاتی ہے-

نفی کی نفی کا قانون ہماری توجہ اس رستے کی طرف دلاتا ہے -جس میں نئی اور ممتاز صورت حال ان تضاد بھرے حالت سے جنم لیتی ہے -جس میں پرانے حالت ایک دم تبدیل ہو کر نئی حالت میں سامنے آ جاتے ہیں-اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مستقبل ماضی کے عناصر رکھتا ہے-لکین یہ مستقبل ماضی سے بہت مختلف ہوتا ہے-مارکس کہتا ہے کہ مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہم تصادم سے یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے سماج واپس ما قبل سرمایہ داری والی حالت میں چلا جائے گا-بلکہ ہم نئی قسم کے سماج کی توقع کرتے ہیں-

آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ جدلیات اس وقت تک انسانوں کے شعور اور کنٹرول سے باہر اندھی قوت کی طرح کام کرتی رہتی ہے جب تک کوئی طبقہ سماج کی فطرت سمجھنے کے قابل نہ ہو جائے-اور وہ سرمایہ داری سماج میں میں موجود تضادات پر قابو پانے کے قابل نہ ہو-مارکس اور اینگلس بھی ہیگل کی جدلیات کو اس وقت بدلنے کے قابل ہوئے تھے جب انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ محنت کش وہ طبقہ ہے جو اپنی نجات بھی کر سکتا ہے اور باقی سماج کی بھی-کیونکہ اس کو یہ مقام مل چکا ہے-اور مادی جدلیات ہی مارکس کا مزدور انقلاب کا نظریہ ہے-