Sunday 4 December 2011

امام علی اور ان کا نظریہ توحید

امام علی اور ان کا نظریہ توحید
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود اور نظریہ توحید پر ایک تھیسس لکھنا تھا-اور اس تھیسس کے لئے مجھے مسلم فلسفہ میں توحید کی حوالے سے اول سے لیکر آخر تک توحید کے حوالے سے مسلم فکر کے ارتقاء کی تاریخ کو دیکھنا پڑا-یہ بہت دلچسپ کہانی بنتی ہے-میں نے انہی دنوں نہ صرف شیعہ اور بریلوی مولوی حضرت سے رابطے کئے-بلکہ دیوبندی اور وہابی حضرات سے بھی رابطے ہوئے-اور ان روابط کے دوران جہاں مسلم تاریخ کے اولین ماخذ کے بارے میں بہت ساری آگاہی ملی -وہیں پر مجھے عقیدہ توحید کے حوالے سے ہونے والے معرکوں کے بارے میں بھی پتہ چلا-
مسلم تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بنتا ہے کہ یہاں جو توحید کے حوالے سے بحث شروع ہوئی -اس کا پس منظر سیاسی تھا-اور یہ سیاسی جدوجہد تھی جس کے دوران عقیدہ توحید میں بھی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی رہیں-خلافت اور اس کے پہلو سے نکلنے والی ملوکیت نے توحید کو جس طرح سے شکل دینے کی کوشش کی -اس کو اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرکاری اور درباری مولویوں اور مفتیوں کو کیوں یہ ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ توحید میں اس کی ذات کو اس کی صفات سے الگ کر کے ایک دوئی کی کیفیت پیدا کر دیں-یہ جو ذات الہی کی تقسیم کی کوشش تھی -اسی کی وجہ سے بنوامیہ اور بنو عباس اپنے پنی ملوکیت کو قائم اور دائم رکھ سکتے تھے-اور اسی کے بل بوتے پر وہ یہ کہ سکتے تھے کہ توحید اور عدل کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں بنتا ہے-جب آپ ذات اور صفات دونوں کو قدیم ماں لیتے ہیں تو ایک طرف تو فکری طور پر ایسی پیچدگی کا آغاز ہوتا ہے کہ آپ اس سے نکلنا بھی چاہئیں تو نہیں نکل سکتے -کی وجود ایکٹو واجب الوجود ثابت ہوتے ہیں-واجب الوجود کا مطلوب یہ کہ ایسا وجود جو اپنے ہونےمیں کسی اور کا محتاج نہ ہو-پھر یہ کثیر وجود کئی ازلی اور قدیمی وجودوں کو ماننے پر آکر رکتے ہیں-اور پھر یہ سلسہ چلتے چلتے واجب الوجود ذات کو حادث ،ممکن وجود میں لے آتا ہے-یہ وہ مشکلات ہیں جن سے سرکاری اور درباری مولویوں اور مفتیوں سے نظریہ توحید کو اخذ کرنے والے ہمیشہ دوچار رہے-اور یہ نظریہ توحید ظالموں اور قبضہ گیروں کو جواز حکمرانی بھی فراہم کرتا رہا ہے-
میں یہ ساری تفصیلات جان کر حیرانی کے سمندر میں غرق رہا-مابعد الطبیعات سے مجھے اس قدر کبھی لگاؤ نہیں رہا تھا-اور میں جو جدلیاتی مادیت کا سچا پیرو کار ہوں -کبھی مذہبی موشگافیوں میں مبتلا بھی نہیں رہا-لکین ایک علمی تحقیق کے دوران جب اس معاملے کو دیکھنا پڑا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا تاریخی مادیتی شعور میرے کتنے کام آیا -کہ میں ان نظریات کے جدال کے پیچھے کارفرما ٹھوس مادی حالت کا بھی ادرک کرنے کے قابل ہوگیا-اگر کبھی موقعہ ملا تو توحیدی نظریات کے پیچھے کارفرما تاریخی مادی حالات بارے بھی تفصیل سے لکھوں گا-سردست میرا مقصد امام علی کے نظریہ توحید کے بارے میں بات کرنا ہے-اور یہ میں اس لیکرنے جا رہا ہوں کہ کل رات امام بارگاہ میں مجلس پڑھتے ہوئے ایک عالم نے ذات خداوندی پر بات کرتے ہوئے خدا کی ذات کے مظہر ہونے کی ایک دلیل پر گفتگو کی تو مجھے وہ عالم امام علی کے نظریہ توحید سے کون دور نظر آئے-اور اسی غلطی کے مرتکب ہوئے جس سے بچانے کے لئے امام علی نے بہت مرتبہ توحید پر کلام کیا-یہ کلام بہت اہمیت کا حامل ہے-اور اس کلام کے مواد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ آتا ہے کہ امام کس قدر اس بات سے آگاہ تھے کہ تشبیہ اور مثل دو ایسی بیماریاں ہیں جو اگر توحید میں داخل ہوجائیں تو پھر توحید توحید نہیں رہتی بلکہ دوئی میں بدل جاتی ہے-مجھے امام علی کے کلام میں یہ پہلو اس وقت نظر آیا جب میں نہج البلاغہ میں امام کے اقوال توحید پر تلاش کر رہا تھا-اب یہ عجیب اتفاق تھا کہ امام علی کا پہلا خطبہ جو آفرینش کے بارے میں ہے -اس کا آغاز ہی اسی نظریہ توحید کے بیان سے ہوتا تھا-اور شائد یہ امام علی کا پوری نہج البلاغہ میں سب سے زیادہ تفصیلی خطبہ ہے-عقیدہ توحید پر-اور یہ وہ خطبہ ہے جس کو پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ کیوں ابن عربی جیسا عالم صفات کے عین ذات ہونے پر اصرار کرتا تھا-اور معتزلہ کیوں توحید میں تنزیہ کو ضروری قرار دیتے تھے-اور تشبیہ کی مخالفت میں کمر بستہ تھے-اور کیوں فخر الدین رازی پر سوال نقد اور جواب ادھار دینے کا الزام لگا تھا-اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں بنو امیہ اور بنو عباس کے بادشاہوں کے درباری مولوی آخر میں عقل ،استدلال ،منطق،فلسفہ ہی کے دشمن ہو گئے تھے-اور پھر بغداد اور غرناطہ میں کتب ہائے علمی کو جلایا کیوں جانے لگا تھا-اگر ہم مسلم دنیا میں زوال علمی اور فلسفیانہ علوم اور سماجی علوم سے نفرت اور حقارت والے رویہ کے پھلنے اور پھولنے کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کی وجہ بھی یہی سرکاری نظریہ توحید نظرآئے گا-
تو امام علی کا یہ اول خطبہ بہت اہم ہے-میں مجلس سن کر گھر آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ میں نے اپنے نوٹس والی پرانی کاپی نکالی اور بیروت سے چھپی نہج البلاغہ سامنے رکھی -جس پر ایک عربی اور ایک فارسی تشریح کے حاشیہ موجود ہیں-تو مجھے احساس ہوا کہ میرا خیال ٹھیک تھا-میرے نوٹس میں عنوان لکھا ہوا ہے "حضرت علی کرم الله وجہہ کا نظریہ توحید "
یہاں میں نوٹس کو جوں کا توندرج کر رہا ہوں-
نہج البلاغہ کا خطبہ اول میں ایک جگہ لکھا ہے
وہ ذات جس کا ادرک بلند ہمت والے بھی نہیں
کر سکتے-
پھر اسی خطبہ میں مولا کا یہ فرمان درج ہے
دین کی اول (بنیاد)اس کی (ذات خدا )کی معرفت ہے
اور اس کی معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے
اس کی تصدیق کا کمال اس کی توحید ہے
اور کمال توحید اس کے لئے اخلاص ہے
اور کمال اخلاص اس کی ذات سے صفات کی نفی ہے
اور یہ گواہی دینا ہے کہ ہر صفت اپنے موصوف کی غیر
ہوتی ہے-
یہ بھی گواہی دینا ہے کہ موصوف بھی اپنی صفت کا غیر ہوتا ہے
تو جو بھی صفت کو موصوف سے ملاتا ہے -وہ دوئی کا مرتکب
ہوتا ہے-
اور جو دوئی کا مرتکب ہوتا ہے -وہ ذات کی تقسیم کا مرتکب ہوتا ہے
اور جو ذات کو تقسیم کرے -ووھیس ذات سے بےخبر ہوتا ہے
اور یہ ذات سے بے خبری ہے کہ اس کی سمت اشارہ ہوتا ہے
نوٹ :امام علی نے یہاں بتایا ہے کہ صفات کو اگر تسلیم کر لیا تویہ ذات خدا کو تقسیم کرنے کا عمل ہوگا-اور اسی کے نتجہ میں خدا کے لئے کسی مکان اور جہت کا ماننا لازم آئے گا-اور پھر خدا اور بندے میں کوئی فرق نہیں رہے گا-
جو اس کی طرف اشارہ کرے -وہ اس کی حد مقرر کرے
جو حد مقرر کرے تو گویا اس کو قابل شمار خیال کرے
اور جس نے خدا کے مکان بارے سوال کیا
اس نے اسے مکان کے ساتھ ملا دیا
جس نے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ کس چیز پر ہے
اس نے دوسرے مقام کو اس سے خالی خیال کر لیا-
نوٹ :امام علی کا یہ بیان اس کی ذات کے مطلق واحد ہونیور اس کی ذات کے مجرد واحد ہونیکے بارے میں ہے-اور جب کوئی مطلق ومجرد واحد ہو تو پھر اس کی تقسیم کا کوئی شبہ نہیرھتا-امام علی کا کہنا یہ ہے کہ خدا کی زاٹکی وحدت تجرید اور مطلق وحدت پر ہے-اسی وجہ سووہ صفت کو اس کی ذات سے الگ یا اس کی ذات پر زائد ہونے سے انکار کو کمال توحید قرار دیتے ہیں-اور ان کے نزدیک تبھی تو ذات کی وحدت برقرار رہتی ہے-اسی لئے وہ مرکب وحدت کا انکار کرتے ہیں-کیونکہ جو مرکب ہو -وہ ترکیب میں آتا ہی اجزاء سے ہے اور جو اجزاء سے مرکب ہواہو وہ تقسیم و تحلیل بھی ہو سکتا ہے-اور جو تحلیل و تقسیم ہو جائے یاس کا امکان پیدا ہو جائے وہ ذات پھر خدا کی ذات تو تو نہیں رہ پاتی-مولا علی کی یہ توجیح مجھے سورہ اخلاص سے اخذ کی ہوئی لگتی ہے-کیونکہ سورہ اخلاص ووہسورۂ ہے جو مکمل تجرید اور تنزیہ کی کامل و اکمل مثال ہے-جس میں احد،صمد اور پھر اس کے احد ہونے اور اس کی احدیت میں کسی کے شریک نہ ہونے کا بھی ذکر موجود ہے-اور قران ہی میں ایک جگہ یہ موجود ہے کہ
کوئی شے بھی اس کے مثل نہیں ہے-
اور ایک جگہ یوں ہے
آنکھیں اس کا ادرک نہیں کرتیں -مگر وہ تمام کی بصریتوں
کا ادرک کرتا ہے-
کیونکہ ادرک کو جتنا چاہئیں پھیلائے -اس کی ذات کا احاطہ ممکن نہیں ہے-کیونکہ کے ممکن کا ادرک بھی ممکن اور اس کی کوئی ابتدا ،درمیان اور آخر ہوا کرتا ہے-اور یہ ابتدا،درمیان اور آخر تو احدیت کے منافی ہیں-جو وجود ممکن ہے -وہ حادث بھی ہے-اور اپنے ہونے کے لیےکسی کا محتاج بھی-اور جو جوہر ہے وہ بھی چار جہتوں اور وقت کے ساتھ بندھے ہونے کی وجہ سے ممکن ہی ہوتا ہے-اور جو عرض ہو وہ بھمختالیف کیفیتوں کی وجہ سے ممکن اور بقا سے خالی ہوتا ہے-تو خدا عاملی کہاں اپنی ذات کے اعتبار سے واحد بھی ہے-اور اپنے وجود کے اعتبار سے بھی وہ واحد ہے-اور اسی لئے واجب الوجود ہے-مطلب وہ اپنے ہونے کے لئے کسی اور چیز کا محتاج نہیں ہے-اور اسی وجہ سے اس کی صفات کو اس کی ذات کا عین کہا گیا ہے-یہ اس کی ذات پرکسی قسم کا اضافہ نہیں ہیں-نہ ہی اس پر کوئی زائدہ قسم کی چیز ہیں-
یہ ہیں وہ نوٹس جو میں نے پہلے خطبہ کے بارے میں لئے تھے-میں نے عربی اور فارسی عبارت کو حذف کر دیا -کیونکہ مطلب اور ثقیل ہوجاتا-تجرید اور اخلاص کا توحید میں جو پیمانہ امام علی نے اپنے خطبہ میں بیان کیا -وہ مجھے کل رات نظر نہیں آیا-بلکہ تشبیہ اور ذات کی تقسیم کی طرف مائل عالم کا خطاب بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا-ایک اچھی بات یہ عالم اپنے سننے والوں سے کہ رہے تھے کہ انہیں اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے-کتب کو پڑھنا چاہئے-تاکہ کل کو وہ مجھے کہ سکیں صاحب آپ یہاں غلطی پر ہو-میرا دل چاہا تھا کہ میں اٹھ کےرسول کر دلوں -لکین میں نے ان کی کہی بات کو عقیدت سے سنا اور قبول کر لیا-اس کا تجربہ کرنے کی کوشش نہیں کی-ورنہ نتیجہ بہت برا نکلنا تھا-میں شائد اس وقتبیٹھا یہ نوٹ نہ لکھ رہاہوتا-
ہاں ایک اور بات یاد آئی -رات یہ عالم اپنے علم کو گلوبلائز کرنے کا کہ رہے تھے-اور اس کے لئے انٹرنیشنل مارکیٹ سے جڑنے کا کہ رہے تھے-منڈی اور وہ بھی بین الاقوامی .........تو مجھے بے اختیار خیال آیا کہ منڈی کی معشیت کا تو اصول رسد اورسپلائی پر ہے-اور توحید کو اگر پروڈکٹ کے طور پر دیکھاگیا تو اس کے ساتھ منافع کو بھی جوڑنا پڑے گا-علی کی جو توحید ہے-وہ تو امراء،دولت مندوں ،طاقت وروں کے مقابلے میں کمزروں کی ہمنوا ہے-منڈی کی معشیت میں تو یہ ویسے ہی ناکام ہو جائے گی-یا پھر اس کا کردار تبدیل کرنا پڑے گا-جیسے صفوی بادشاہوں نے کیا تھا-اور علی شریتی کو کہنا پڑا تھا کہ صفوی شیعت کا سرخ شیعت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا-اور یہ علی کی شیعت نہیں ہے-ہمارے ذاکروں اور مولویوں نے تو برصغیر میں اس کا کردار عرصۂ دراز سے بدل رکھا ہے-یہ فیوڈلز ،سرمایہ داروں ،نوابوں اور افسر شاہی کی خدمت کرنے والے نظریہ کا روپ دھار چکی ہے-اور دیہی غریب تو اس اشراف پنے کے ہاتھوں صدیوں سے استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں-