Saturday 12 November 2011

حسن ناصر شہید ........انقلابی سیاست کا چمکتا ستارہ



حسن ناصر شہید ........انقلابی سیاست کا چمکتا ستارہ

١٣ نومبر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے-جس دن پاکستان میں محنت کش طبقات اور طالب علموں کے حقوق کے لئے سرگرم رہنما حسن ناصر کو شاہی قلعہ کی بدنام جیل میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا-اور ان کی ہلاکت کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی-
پاکستان کی مزدور تحریک کا یہ پہلا شہید تو تھا ہی-یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دوسرا بڑا سیاسی قتل بھی تھا-جس کا آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا-
حسن ناصر حیدر آباد دکن ہندوستان کی ریاست کی ایک نواب فیملی سے تعلق رکھتے تھے-مسلم لیگ کے بانی اور ڈھاکہ کی معروف نواب وقار الملک ان کے نانا لگتے تھے-لکین حسن ناصر زمانہ طالب علمی میں حیدر آباد میں کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے-انھوں نے حیدر آباد کے علاقہ تلنگانہ میں کسانوں کی مسلح بغاوت میں معروف ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین کے ساتھ حصہ لیا تھا-وہ پاکستان اس وقت آئے جب ١٩٤٨ میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پاکستان میں الگ سے کیمونسٹ پارٹی "کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان"کے نام سے بنانے کی اجازت دے ڈالی-وہ کراچی کی کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب کے گئے-انھوں نے کراچی میں خاص طور پر اور سندھ میں عام طور پر مزدوروں ،کسانوں،ریڈکل دانشوروں اور طالب علموں کو منظم کرنے کے لئے قائم کی گئی تنظیمیں "ڈیموکرٹیک سٹوڈنٹس فیڈریشن " "کسان رابطہ کیمٹی " "انجمن ترقی پسند مصنفین "کو مضبوط کرنے کے لئے کام کیا-اور کراچی میں جلد ہی محنت کشوں اور طالب علموں کی ایک مضبوط تحریک کی بنیاد رکھ دی-
حسن ناصر ابھی پاکستان نہیں آئے تھے کہ پاکستان کی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئے تھے-کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے اکثر عہدے داروں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے-لکین اس کے باوجود حسن ناصر اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان میں جاگیرداری .گماشتہ سرمایہ داری کے خاتمے ،مزدور دوست ریاست کے قیام اور ملک میں سوشلزم کے قیام کے لئے جدوجہد جاری رکھی-
حسن ناصر کا شمار پاکستان کے ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں جاگیردار سیاست دانوں ،وردی ،بے وردی نوکر شاہی ،رجعت پسند مولوی اور لوگوں کا خون چوسنے والی سرمایہ دار کلاس کے خلاف جدوجہد کی-
پاکستان بننے کے ساتھ ہی اس ملک کے حکمرانوں نے ریاستی مشینری اور مولوی کے پروپیگنڈے کے زور پر پاکستان میں آمرانہ طرز حکومت قائم رکھا -وعدے کے باوجود مسلم لیگ نے جاگیرداری کا خاتمہ نہ کیا-زرعی اصلاحات نہ کی گئیں،ملک میں صنعتی انقلاب کے لئے کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا،سیاسی آزادی کو سلب کر لیا گیا-دستور ساز اسمبلی کے انتخابات نہ کرائے گئے-صوبائی خود مختاری کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا -اردو سمیت پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا-اسی طرح طالب علموں ،مزدوروں اور پروفیشنل مڈل کلاس کو اپنی یونینز بنانے کے حق سے محروم رکھا گیا-ان زیادتیوں کی وجہ سے پورے ملک میں طالب علموں .مزدوروں اور کسانوں نے شہری مڈل کلاس کے انقلابی دانشوروں کے ساتھ ملک کر تحریک اور مزاحمت کا آغاز کیا-حسن ناصر اس تحریک کا ہر اول دستہ تھے-
استحصالی طبقات کی محافظ ریاست کے حکمران اس تحریک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئے-اور انھوں نے ١٩٥١ میں کیمونسٹ پارٹی اور اس کی حامی تنظیموں پر ریاست کے خلاف سازش کرنے اور چند فوجی افسروں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگا کر پابندی لگا ڈالی-اور کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر ،فیض احمد فیض،مرزا ابراہیم ،میجر اسحاق،ظفر الله پوشنی وغیرہ کو گرفتار کر لیا -حسن ناصر بھی حکومت کو مطلوب تھے-لکین وہ کافی عرصۂ تک ہاتھ نہ آئے-تیرہ نومبر ١٩٥٢ کو ان کو پولیس نے گرفتار کیا -اور لاہور کی بدنام زمانہ جیل شاہی قلعہ میں ان کو منتقل کر دیا گیا-یہاں پر ان کو انسپکٹر جنرل پولیس قربان علی خان کے حکم پر اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کی وہاں پر موت ہوگئے-یہ تیرہ نومبر ١٩٦٠ کی تاریخ تھی-ایوب خان اس وقت برسراقتدار تھا-اس واقعہ کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی -لکین سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ سیاسی قتل ہے-حسن ناصر کی والدہ ہندوستان سے پاکستان آئیں-انھوں نے قبرستان میں حسن ناصر کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ حسن ناصر کا خون رائیگاں نہیں جائے گا-اور کئی اور حسن ناصر جنم لیں گے-
تاریخ نے اس بات کو سچ کر دکھایا کہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایوب خان کی آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی-محنت کشوں نے پورے ملک میں ٦٨-٩ میں انقلابی تحریک چلائی-اس تحریک کے نتیجہ میںپی پی پی جیسی مزدور روایت کی حامل پارتی بھی سامنے آئی -اور ملک میں جہموریت بھی آئی -محنت کشوں،کسانوں ،طالب علموں کو پہلی بار حقوق بھی ملے-لکین یہ تحریک اپنے منتقی انجام "سوشلسٹ انقلاب "کی منزل تک نہ پہنچ پائی-
آج جب حسن ناصر کی شہادت کا دن آیا ہے-تو پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کی بربریت کے خلاف تحریک چل رہی ہے-پاکستان میں محنت کش ،طالب علم ،کسان ،متوسط طبقہ کے انقلابی لوگ بھی سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لئے باہر نکلنا چاہتے ہیں-
طالب علم مسلسل تعلیمی اداروں کی نجکاری ،تعلیمی نوکر شاہی کی طرف سے بدترین استحصال کا شکار ہونے،فیسوں میں اضافہ ،سمسٹر سیسٹم ،ڈگری اجراء کے دورانیہ میں اضافہ ،انترے ٹیسٹ سمیت امتحانی عمل کو استحصالی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے طریقہ ،یونیورسٹیوں میں وی سی سے لیکر رجسٹرار ،ایڈمن اور کنٹرولر امتحانات کی نوکر شاہی کا ہاتھوں سخت پریشان ہیں-موجودہ نظام تعلیم بہت واضح انداز میں صرف دولتمندوں کی خدمت کر رہا ہے-ریاست بلواسطہ طور پر تعلیم جیسے بنیادی حق کی محنت کشوں کو مفت فراہمی کے منصب سے بھی دست بردار ہوچکی ہے-ایک طرف طالب علموں کو یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں کی نوکر شاہی کے مظالم کا سامنا ہے-دوسری طرف ان کو تعلیمی بورڈز اور ہائر ایجوکیسن کیمشیں کی چیرہ دستیوں کا سامنا ہے-اس وقت ملک میں سرمایہ داروں کے مفادات کی ترجمان حکمران کلاس سارے اقدامات ایک چھوٹی سی امیر اقلیت کو نوازنے کے لئے اٹھا رہی ہے-پاکستان میں طلبہ اور طالبات کو اشد ضرورت ہے کہ وہ ایک طرف تو حکومت اور نجی شعبہ کی طرف سے تعلیم کو کاروبار کے طرز پر چلانے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں -ان کو سرمایہ داری کے تعلیمی ماڈل کو رد کرنے کے لئے خود کو منظم کرنا ہوگا-اور تعلیم کو مکمل طور پر ریاست کی ذمہ داری قرار دینے اور اس کو کاروبار کے طور پر چلانے پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کرنا ہوگا-یونورستوں ،کالجوں اور اسکولوں کو جمہوری طور پر چلانے اور ان کی انتظامی امور کو طلبہ،اساتذہ اور شہریوں کی منتخب کونسلوں کے تحت چلانے کا نظام لانے کا مطالبہ بھی کرنا ہوگا-اس کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو سامراج اور عالمی سرمایہ داری سے جڑی پاکستان کی معشیت کو آزاد کرانے کے لئے محنت کش طبقات کے ساتھ بھی ملنا ہوگا-
اسی طرح اس ملک کی ورکنگ کلاس کے سر پر نکالے جانے کی تلوار لٹک رہی ہے-زیادہ سے زیادہ لوگ سرکاری ،نعیم سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں سے نکالے جا رہے ہیں-یا ان کو جز وقتی ملازم کے طور پر بھرتی کیا جا رہا ہے-ملک میں انفارمل لیبر سیکٹر میں اضافہ محنت کشوں کے حالات میں ابتری کی علامت ہے-ترید یونین رائیٹس پر حملہ ہو رہا ہے-اداروں کو بیچنے اور ان اداروں کے ملازوں کو فارغ کر دئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے-
اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کا درمیانہ طبقہ جس کی بہت زیادہ تعداد نچلے متوسط طبقے کی ہے-وہ بھی بد حالی کا شکار ہے-اساتذہ ،ڈاکٹر ،وکیل ،انجینئیر ان کی اکثر نچلی پرتیں بدحالی کو پہنچ گئی ہیں-بے روزگاری کا سیلاب ہے-اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے تیل،بجلی ،گیس کی قیمتوں میں اضافہ .بنیادی ضرورت کی چیزوں پر مختلف قسم کے وفاقی صوبائی ٹیکسز اور اس کے ساتھ سرمایہ داروں کے کارٹیلز بنا کر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کی روش ورکنگ کلاس کی تعداد میں مزید اضافہ کر رہی ہے-
اس صورت حال میں ہمیں حسن ناصر شہید کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے -فیصلہ کن راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے-اس ملک میں عوامی طبقات کو مل کر سرمایہ داری نظام پر مشتمل ریاستی ماڈل کے خلاف ایک بڑی مزاحمتی تحریک کی تعمیر ضرورت ہے-
آئیے!
مل کر سرمایہ داری مخالف تحریک کی تعمیر کریں-ملک سے استحصالی نظام کے خاتمہ تک جدوجہد رکھیں-
انقلاب کے تین نشان ---------طلبہ -مزدور -کسان
منجانب :پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان -نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان ،انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن ،انڑنیشنل سوشلسٹ پاکستان